تحریر : انجینئر افتخار چودھری اس شہر نامدار کو نظر ہی لگ گئی۔کہاں ٧٤ کی دہائی میں ہل پارک کے سبزے اور کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سونا پیرا ڈائز پوائینٹ صدر کی گلیوں اور بازاروں میں چہکنا۔پنجاب سے ئے طلبا جدھر گئے والہانہ استقبال سستی چیزیں کھانے چٹ پٹے۔پہلی پیالی چائے کی پیالی ملی تو کہا بھائی جان کراچی والے کنجوس ہیں جواب ملا نہیں جناب پ نے سنگل مانگی ہے۔کینٹ اسٹیشن کے ایک ہوٹل جس کا کرایہ ٢٢ روپے تھے اس میں میں اور روف ٹھہرے ناشتہ تین روپے کا پہلی بار چوکور پراٹھے دیکھے اور کھائے۔کسی نے کہا کچھوے کے انڈے ہیں مت کھانا جواب دیا یار ٹرین کا ڈبہ بک ہے ہم نے کون سے رینگ کے جانا ہے۔ہزارے وال تو ویسے بھی لاجواب ہوتے ہیں کسی نے ماہیا گایا بڑے بوٹا لاچی دا ہولے ہولے ٹر گڈئیے لماں سفر کراچی دا(میرے صحن میں الائچی کا بوٹا ہے میرے محبوب کو تو کراچی لے جا رہی ہے گاڑی ذرا آہستہ آہستہ چلنا) میں وہیں شکیل ایکسپریس سے ٹکٹ لے کر جدہ پہنچا ویزے کے لئے لائن میں لگا تو ایک سمارٹ سے لڑکے نے ہم دونوں سے چھ سو روپے لئے اور اگلے روز عمرہ ویزہ لگا کر تھما دیا۔سلجھے ہوئے لوگ باتوں میں شائستگی ہم ہر وقت کچھ سیکھنے کے موڈ میں ہوتے بولتے بھی کیا سامنے کراچی والے تھے۔
پہلا کراچی بوائے ہمارے ساتھ عطا محمد اسلامیہ اسکول گجرانوالہ میں داخل ہوا پورا اسکول اس سے مرعوب تھا۔٧٤ میں اسلمای جمعیت طلبہ کے سالانہ اجتماع جو قیوم اسٹیڈیم پشاور میٰ ہوا وہاں جب کراچی والوں کی میزبانی کا ٹائم آیا تو لوگ عش عش کر اٹھے۔اس شہر کو کیا ہوا؟کس نے اس کی رونقیں چھینیں۔مجھے سچ پوچھئے جب لکھتا ہوں تو نوید شاہد حسین یاد آ جاتے ہیں سید جاوید بھابی صبیحہ کس کس کا نام لوں۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہاتھ تھاما۔ہم پلائو کو بریانی سمجھنے والے لوگ حلیم کے ساتھ روٹی کھا جاتے ہیں یہ سلیقے یہ سلجھائو شہر قائد سے پاکستان پہنچا۔لیکن اب آگے دیکھئے۔ایم کیو ایم سے بھلے سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس نے بغیر کسی لسانی،صوبائی اور نسلی تعصب کے ہر ایک کی بوری بنائی جس کا رنگ ایک تھا ڈھنگ ایک تھا۔
سنا ہے افریقہ کے جنگلوں میں ایک ایسا درخت ہے جسے آدم خور کہتے ہیں وہ اپنے نیچے سے گزرنے والے کو دبوچ لیتا ہے۔اس درخت کو تو نہیں دیکھا لیکن بہت سی فلموں میں ایک بڑا سانپ جسے اژدھا کہا جاتا ہے انسان کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی جان لے لیتا ہے اسے دیکھا ہے۔ایک مدت ہوئی کراچی کو شائد اسی قسم کے درخت اور سانپ نے قابو کئے ہوئے ہے۔بشری زیدی ایک لڑکی تھی جسے ایک تیز رفتار گاڑی نے اسی کی دہائی میں کچل دیا اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ٹرانسپورٹ جو پشتون اور ہزارے وال چلایا کرتے تھے اسے منظم انداز سے جلا دیا گیا۔
Karachi Rally
پرامن کراچی جسے منی پاکستان کہا جاتا تھا پاکستان کے بہت سے لوگوں کے لئے اجنبی بنا دیا گیا پشتون ہزارے وال سندھی بلوچ کمیونٹی اپنے اپنے سرکلز میں مختلف علاقے قبضے میں لے کر بیٹھ گئے۔دو کروڑ سے زائد اس شہر میں ایک موت کا دریا رواں ہوا اس میں کیا کیا آسمان لوگ لحد میں اتارے گئے۔لسانیت کے نام پر تعصب کی فضاء نے پاکستان کا چہرہ دھندلا کے رکھ دیا۔وہ کراچی جو خطے کا دبئی تھا اسے بیروت کی شکل دے دی گئی۔اس دوران بیروت تو سنبھل گیا مگر شہر قائد کی حالت نہ سنوری۔ایم کیو ایم شروع میں جماعت اسلامی کا توڑ بنا کر پیش کی گئی۔ضیاء الحق کے دور میں ایم کیو ایم کو سامنے لایا گیا۔اس کے بنانے کا ایک مثبت پہلو سامنے رکھا گیا اگر آپ اس کی دہائی میں جائیں تو اے آر ڈی اور پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ فوجی حکومت کے لئے درد سر بنا ہوا تھا ۔فوجی حکومت نے اس سے جان چھڑانے کے لئے پھولوں کے دستے اپنے سربراہ کے ہاتھوں سن میں مقیم جئے سندھ کے جی ایم سید کو پیش کئے۔یہ وہی جی ایم سید ہیں جنہوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے اور پرچم بھی نذر آتش کئے۔ثابت ہوا کہ نعرے لگنے اور پرچم جلنے کے باوجود اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک کو کچھ نہیں ہوا۔
الطاف حسین کی ایم کیو ایم پھر را کے ہاتھوں لگ گئی اور الطاف حسین و دیگر لوگوں نے پراپوگینڈے کی حد کر دی کے پاکستان بنانے والے اردو اسپیکنگ لوگوں کی اولادوں کو جینے کاحق نہیں دی جا رہا۔حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کی چنگیر (تھالی) میں روٹیاں ہی تھوڑی تھیں اور اوپر سے تقسیم کار بھی بد نیت ملے۔یہ دکھ سرائیکی بیلٹ کا بھی تھا اور بلوچوں کا بھی اور تو اور اسلام آباد کے پیچھے پہاڑی علاقے جو ہزارہ کا حصہ ہیں یہاں بھی میں گوڈے گوڈے کھبی ہوئی قوم رہتی ہے۔الطاف حسین نے پاکستان کو آج تو گالی نہیں دی دس سال پہلے بھی وہ ہندوستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر دو قومی نظریے اور برصغیر کی تقسیم کے خلاگ زہر اگل چکے ہیں۔سچ پوچھیں پاکستان کو شروع دن ہی سے تسلیم نہیں کیا گیا بھارت تو سمجھتا رہا کہ گائو ماتا کے ٹکڑوں کو پھر سے اکٹھا کرے گا۔پاکستان کے قیام کے ٢٤ برس بعد ہی اسے زبان کے نام پر دولخت کر دیا گیا۔ایٹمی پاکستان کو باہر سے نہیں اب اندر سے توڑنے کی کوششین ہو رہی ہیں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول تو سر عام اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
ابھی حال ہی میں ایک سکیم سامنے آئی ہے کہ کراچی میں را کے تربیت یافتہ لوگوں کو جو جدید اسلحے سے لیس ہیں اور جن کی تعداد تقریبا ٩ ہزار ہے انہیں کراچی کی گلیوں میں اتارا جائے گا۔یاد رہے نیٹو کنٹینرز کی ایک اچھی خاصی تعداد جو اسلحے سے بھرے ہوئے تھے غائب ہوئے تھے یہی اسلحہ ان تربیت یافتہ لوگوں کے پاس ہے جو براہ راست ایم کیو ایم لندنکی کمان میں ہیں۔پاک فوج کے پیچھے چھپ کر ایک عرصہ تک سیاست کرنے والوں نے میجر کلیم کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہاتھی کو کیسے کھایا جائے۔بلکل اس دبلے پتلے شخص کی طرح جس نے موٹے تازوں کے ہوتے ہوئے سوال کرنے کو جواب دیا تھا کہ ہاں ہاتھی کھایا جا سکتا ہے۔سائل نے کہا کیسے اس کا جواب تھا بائیٹ بائی بائیٹ،یعنی لقمہ لقمہ کر کے۔
Zarb e Azb
آپریشن ضرب عضب جاری ہوئے دو سال ہو گئے ہیں ان دو سالوں میں کراچی کا چہرہ بدل گیا ہے۔گرچہ اس دوران سیکورٹی اداروں کو نیکٹا کے لئے مناسب رقوم بھی نہیں ملیں اور ان کے ساتھ گلے کے اوپر اوپر تعاون کیا مگر انہوں نے اپنے راستہ خود نکالا۔ادھر محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی بھی نکلے اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔پاکستان کے دشمن ایک عرصے سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے لگے ہوئے ہیں بد قسمتی سے لاہوری طاقت نے صرف اقتتدار کے لئے ان پاکستان دشمنوں کی مدد حاصل کی تیسری بار اقتتدار کی ترمیم درکار ہو یا عمران خان کا دھرنہ،نوٹ وخا کے ان کا موڈ بنایا جاتا رہا۔اور تو اور پختونخواہ کی پخ تسلیم کر کے صوبہ سرحد کے ہزارے وال اور دیگر سرائیکی بولنے واالوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔وہاں بھی ایک صوبہ ہزارہ تحریک کی بنیاد ڈال دی گئی۔الطاف حسین کے پاکستان مردہ باد کے نعرے نے حبالوطنی کی ایک تازہ لہر پیدا کر دی اور اس ملک دشمن نعرے کی زد میں بہت سے معاملات دب کے رہ گئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک قصاص اور عمران خان کی تحریک احتساب گزشتہ ایک ہفتے سے پیچھے چلی گئی ہیں۔چونکہ یہ قوم روزانہ کی بنیاد پر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے اگر کوئی نیا سانحہ(اللہ نہ کرے) نہ سجایا گیا تو ٣ ستمبر کو شاہدرہ سے لاہور ریلی ایک ریلے کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
کرچی کرچی کراچی میںجنرل بلال اکبر اور ان کی ٹیم جس خوبصورت انداز سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں اس کا علاج یہی ہے۔یقین کیجئے اردو بولنے والوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے ان کی اکثریت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں کمان کر رہی ہے اور ان کی پاکستان سے محبت کسی دوسری کمیونٹی سے کم نہیں ہے لیکن ایک بڑے جھوٹ کے سہارے ایم کیو ایم ان کی پردھان بنی ہوئی ہے ضرورت اسی امر کی ہے کہ اسی طرح سے محب وطن لوگوں کو الطاف اور اس کے مٹھی بھر ساتھیوں سے الگ کر لیا جائے جس طرح کیا جا رہا ہے۔میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن کل ایک ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ملے تو چھوٹتے ہی کہا دیکھئے نہ افتخار بھائی، بھائی نے ہمارے ساتھ کیا کیا اور پھر اس نے بہت بڑی تقریب میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔بھلے سے تحریک انصاف کی دہشت گردوں کے خلاف جاری مزاحمت جو ٢٠٠٧ سے جاری ہے اس کے ثمرات پاک سر زمین پارٹی کی جھولی میں ڈالے جا رہے ہیں لیکن یہ بھی قابل قبول ہے اصل مسئلہ کراچی کو ایک آدم خور درخت اور اژ دھے کے شکنجے سے نکالنے کا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہاتھی کھایا تو جا سکتا ہے مگر لقمہ لقمہ کر کے۔
اس شہر نامدار کو نظر ہی لگ گئی۔کہاں ٧٤ کی دہائی میں ہل پارک کے سبزے اور کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سونا پیرا ڈائز پوائینٹ صدر کی گلیوں اور بازاروں میں چہکنا۔پنجاب سے ئے طلبا جدھر گئے والہانہ استقبال سستی چیزیں کھانے چٹ پٹے۔پہلی پیالی چائے کی پیالی ملی تو کہا بھائی جان کراچی والے کنجوس ہیں جواب ملا نہیں جناب پ نے سنگل مانگی ہے۔کینٹ اسٹیشن کے ایک ہوٹل جس کا کرایہ ٢٢ روپے تھے اس میں میں اور روف ٹھہرے ناشتہ تین روپے کا پہلی بار چوکور پراٹھے دیکھے اور کھائے۔کسی نے کہا کچھوے کے انڈے ہیں مت کھانا جواب دیا یار ٹرین کا ڈبہ بک ہے ہم نے کون سے رینگ کے جانا ہے۔ہزارے وال تو ویسے بھی لاجواب ہوتے ہیں کسی نے ماہیا گایا بڑے بوٹا لاچی دا ہولے ہولے ٹر گڈئیے لماں سفر کراچی دا(میرے صحن میں الائچی کا بوٹا ہے میرے محبوب کو تو کراچی لے جا رہی ہے گاڑی ذرا آہستہ آہستہ چلنا)۔