اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر ایک نگراں رکھا ہے، جسے ضمیر کہا جاتا ہے۔ ضمیر جب تک جاگتا رہتا ہے، سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، مگراس کے مردہ ہوتے ہی اعضائے جسم اچھے برے کی تمیز کھودیتے ہیں اور انسان نفس کی رو میں بہہ جاتا ہے۔ ضمیر کے بیدار رہنے یا مردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں جب بھی برائی، بدعنوانی یانا جائز کاموں کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان و شوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے، اس وقت انسان کا ضمیر شیطانی روپ اختیار کر لیتا ہے اور وہ معاشرے میں منفی کردار انجام دینے لگتا ہے۔ آغاز میں وہ اس فعل بد اور منفی کردار کو چیلنج کے طور پر لیتا ہے۔ مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کر کے معاشرے میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیں تو پھر وہ کیوں نہ ایسا کرے۔ چنانچہ وہ اپنی محنت اور کوشش کو تیز کر دیتا ہے، جب تک اسے اس فعل کے برے انجام کا احساس ہوتا ہے، تب تک وہ اس دلدل میں دھنس چکا ہوتا ہے، جس سے نکلنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور غربت کا خوف اسے اس دلدل میں مردہ زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔
پھر وہ جھوٹ، رشوت، چوری، قتل و خوں ریزی کا بازار گرم کر دیتا ہے، جس سے معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً رشوت خوری ایک بہت برا فعل ہے۔ حق دار سے حق چھین کر غیر مستحق کو حقدار بنانے کے لیے یہ فعل بدانجام دیا جاتا ہے۔ ضمیر کے بیدار رہنے یامردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں جب بھی برائی، بدعنوانی یانا جائز کاموں کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان و شوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے، اس وقت انسان کا ضمیر شیطانی روپ اختیار کر لیتا ہے اور وہ معاشرے میں منفی کردار انجام دینے لگتا ہے۔ آغاز میں وہ اس فعل بد اور منفی کردار کو چیلنج کے طور پر لیتا ہے۔ مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کر کے معاشرے میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیں تو پھر وہ کیوں نہ ایسا کرے۔
اس فعل میں رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں ملوث ہوتے ہیں، کیوں کہ ایک شخص اگر وہ حقدار نہیں ہے تو کیوں دوسرے کا حق لینے کی کوشش کر رہا ہے، پھر یہ جانتے ہوئے کہ اس میں صاحب حق کی حق تلفی ہو گی، رشوت لینے والا اس غلط کام کی اور ناجائز طریقے سے اس کی مدد کر رہا ہے، اسی لیے دونوں گنہگار ہوں گے۔ اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کی مدد کرتے وقت اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کے عوض مال کا مطالبہ کرے یا لاچار شخص اس کو پیسہ دینے کے لیے مجبور ہو، قرآن کریم میں یہ صفت یہودیوں کی قرار دی گئی ہے:”یہ لوگ جھوٹ کو سننے والے اور حرام کا مال کھانے والے ہیں۔”رشوت کا طریقہ نہ صرف مشکلات پیدا کرتا ہے، بلکہ زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ مثلاً آج مکانات تیار کیے جاتے ہیں، تو ان میں اس قدر پیسہ نہیں لگتا، جس قدراس کے بیچنے والے اپنا بھاؤ رکھتے ہیں۔ یا دیگر اشیاء جو انسانوں کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہیں، مگر جب بلڈر یا تاجر سے اس سلسلے میں معلوم کیا جاتا ہے، تووہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ان چیزوں کی تیاری میں بہت زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے، اس کے بغیر ہم انھیں تیار نہیں کر سکتے۔
Bribery
ایسے تاجر اپنی مصنوعات کی قیمت کو مناسب رکھنے کے لیے رشوت میں تو کمی نہیں کر پاتے، کیوں کہ وہ ان کے بس میں نہیں ہوتا، مگر وہ میٹریل میں کمی کر دیتے ہیں، جس سے وہ مکان یا سامان، انسان کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ آئے دن اس طرح کے واقعات اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں، جب کہ رشوت کا یہ مال سفید پوش سرمایہ کاروں کی جیب میں جاتا ہے۔ اولاً تو ایسے واقعات کی چھان بین نہیں ہوتی، اگر عوام کے احتجاج کے نتیجے میں کچھ کارروائی ہوئی بھی، تو صرف وہ لوگ گرفت میں آتے ہیں جو رشوت دینے والے ہوتے ہیں، مگر پس پردہ رہنے والے سفید پوش سرمایہ داروں کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اس طرح رشوت اور بدعنوانی کا عام رواج ہو جاتا ہے۔ پھر اندرونی طور پر اس کاربدکی مدح سرائی یا اس کو مزے لے لے کر بیان کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
تب یہ رویہ ان کے ارد گرد رہنے والے عام لوگوں میں اس برائی کو پیدا کرنے کا محرک بن جاتا ہے، جو معاشرے کے لیے ناسور ثابت ہوتا ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک شخص جو اپنے بچے کو اس کی ذہانت کے سبب بڑا ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتا ہے، تا کہ معاشرے میں اس کی تحسین ہو اور وہ لڑکا آئندہ اس کے لیے بڑے بینک کا اے ٹی ایم ثابت ہو، جس میں ہر وقت روپے بھرے ہوں۔ تو وہ اس کے لیے ڈونیشن کے طور پر لاکھوں، روپے خرچ دیتا ہے۔ پھر جب یہ بچہ بڑا ہو کر اپنی تعلیم مکمل کر لیتا ہے تو اپنے باپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے اور رشوت کا کھیل شروع کر دیتا ہے۔ موجودہ دور میں ایسی ہی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے، جو رشوت خوری کی بنیاد پر کھڑی ہو۔ا یسے میں دوسرے لوگ اس میدان میں پیچھے کیوں رہیں، اس میں عزت بھی ہے اور پیسہ بھی۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ملک کے ان حکمرانوں کا بھی ہے جو انتخاب میں کامیابی کے بعد ملنے والے بے حساب پیسوں کے لیے لاکھوں، کروڑوں روپے انتخابی مراحل میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔
پھر اس کے بعد وہ کیا کرتے ہیں، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی حال تمام معاملات میں ہے، شاید ہی کوئی جگہ ہو جو اس سے خالی ہو۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اس کی تعمیر و ترقی یا اس کے برعکس تخریب و تنزلی کا معاملہ بھی اس میں رہنے والے افراد کے کارناموں سے ہی وجود میں آتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پرامن اور خوشحال رہے، تو ہمیں ‘امربالمعروف اورنہی عن المنکر’ کا فریضہ انجام دینا ہو گا۔ ورنہ معاشرے کے افراد بڑی تعداد میں جرائم میں ملوث ہوں گے اور اسباب تعیش کے حصول، مال واسباب کے غرور میں چور ہو کر وہ دوسروں کو بھی اس مایا جال میں پھنسانے پر مجبور کریں گے۔ ضمیر کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں اسلامی احکام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ ہمہ وقت یہ تصور ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے، اس کی چمک دمک محض ایک دھوکہ ہے، اصل زندگی آخرت کی ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے اور مضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں گے، تو پھر ہمارا ضمیر ہمیشہ بیدار رہے گا اور ہم احساس کمتری کا شکار ہو کر عارضی دنیا کو ترجیح دینے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی، اس کی راحت اور و سکون کو فوقیت دیں گے۔