تحریر: عتیق الرحمن۔ اسلام آباد کسی بھی مذہب و معاشرے میں برائی و بدکاری کو بہتر نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس سے نفرت کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ لوگ جو خود اس قبیح عمل کی تہہ میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں وہ بھی اس کو برا و غلط سمجھنے کے ساتھ ہی ساتھ اس سے نفرت کرتے ہیں اور یہ خواہش بھی ان کے سینوں میں جگہ لیے ہوئے ہوتی ہے کہ وہ اس غلیظ و مغلظ دنیا سے نکلنے کی کاش کوئی سبیل تلاش کرپاتے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان مرد ہو یا عورت ،جوان ہو یا بوڑھا ،اگر اس میں ایمان کی ریت کے ذرہ کے برابر بھی ایمان ہو تو وہ ضرور بالضرور برائی و بدکاری سے نفرت کرے گا اور خود کے اس میں لت پت ہونے پر ندامت تاسف کے آنسو بہائے گا ۔حال ہی میں عبدالکریم آغاشورش کاشمیری ( جو ایک بے باک و بہادر صحافی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے ہر گوشہ کو ممکنہ حدتک کھول کر جگ بیتی ضبط تحریر کردی )کی کتاب ”اُس بازار میں”کے مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا ۔اس کتاب میں آغا شورش مرحوم نے کوئی چھ سو کے قریب خواتین(جو اپنے جسم کو لاہور کے مشہور بازاروں میں فروخت کرتی تھیں) سے ملاقاتوں کے بعد جو ماحاصل معلومات مناسب جانا وہ نقش قلم کردیا۔
آغا شورش نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس لعنت میں گرفتار ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالی اور مختلف طوائفوں کے انٹرویوقلم بند کیے ۔شورش نے ایک جملہ پر بڑا زور دیا کہ معاشرے کے سبھی مولوی ہوں یا سیاستدان ،عام ہوں یا خاص سبھی کے سبھی طوائفیت کی زندگی بسر کرنے والوں کو حقارت و ذلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ عورتیں اس حرام پیشہ میں ملوث ہوکر اپنی عاقبت کو خراب کررہی ہیں اور وہ مرتکبین گناہ ہونے کے سبب اپنا ٹھکانہ نار کو بنا چکی ہیں ۔اس امربدیہی میں کوئی فرد بشر متردد نہیںہوسکتا مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ سبھی لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ جو ہورہاہے ،جو کررہاہے وہ معصیت کی لعنت میں گرفتار ہے اور اس کو کوستے نظرآتے ہیں مگر آج تک کسی نے بھی اس کسبی کاروبار میں داخل ہونے کے اسباب کے بارے میں کسی سے استفسار کرنا مناسب نہ سمجھا یا پھر فتویٰ لگانے سے قبل یہ ضروری نہ جانا کہ کن وجوہات اور کون سے اسباب ان عورتوں یا مردوں یا خنثوں کو اس بدترین حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہے
۔آغا صاحب نے اجمالاً فہرست دی ہے کہ کون کس سبب سے اس دنیا میں آدھمکا ،کسی نے غربت کو سبب بتایا تو کسی نے والدین کی بے رخی ،کسی نے یاروں کی بے ووفائی کو وجہ بیان کیا تو کسی نے خاندانی پیشہ قرار دیا،کوئی بک بکا کر اس بازار میں پہنچی تو کسی کو بے سہاراہونے نے اس بازار تک پہنچا دیا ۔ اس کتاب کو پڑھنے سے یہ واضح طور پر درس ملتا ہے کہ جو لوگ بھی اس جنسی بدکاری و فحاشی کے عمل میں شب و روز بتاتے ہیں وہ لازمی نہیں کہ اپنی خوشی یا رضامندی سے اس عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ یہ امر بعید نہیں کہ اگر اس فعل و عمل میں شریک افراد کو ٹٹولا جائے اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کی جائے ،اور ان سے اسباب و وجوہات معلوم کرلی جائیں اور پھر ان کا تدارک کردیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ لوگ اس لعنت کی دنیا سے ہمیشہ کے لئے باہر نکل آئیں گے بلکہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر فحاشیت و عریانیت اور جنسی فروخت کی دنیا سے پاک ہوجائے گا۔
Society
راقم کے مشاہدہ میں متعددواقعات ایسے ہیں کہ جو معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں مگر افسوس کہ معاشرے کے سبھی طبقے دم بخوداور بے حسی و بے حمیتی کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔(دوسری قسط میں بعض مشاہداتی واقعات ذکر کروں گا ) اگر میں یوں کہوں کہ معاشرے میں بدکاری و فحاشی کے فروغ میں محرکات بننے والے سبھی طبقے ذمہ دار ہیں تو ہر گز غلط نہیں ہوگا کیوں کہ سیاستدان ،صحافی ،پولیس ،مولوی و صوفی ان کی نگاہوں کے سامنے سب کچھ بین و ظاہر ہے مگر تغافل برتتے ہیں اس عمل کی روک تھام کے انتظام کرنے کے سلسلہ میں۔مثلاً سیاستدان و حکمران ملک میں عادلانہ قانون نافذ کرسکتے ہیں کہ جس سے معاشرے میں موجود تفاوت مٹ سکتی ہے اور ہر فرد بشر کو باعزت روزگار ،گھر،لباس میسر آسکتاہے ۔ہاں یہاں اس بات کی جانب بھی اشارہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ بدکاری و فحاشی کے عنصر کو فروغ دینے میں غیرملکی این جی اوز اور بیرونی مداخلت و ایماپر بذریعہ میڈیا اور اشتہارات کے عورت کو مادر پدر آزادی کی طرف راغب کیا جارہاہے
مخلوط تعلیم و نشست و برخاست بھی بدکاری کی جانب معاون ثابت ہورہی ہے ان سب کا تدارک اور اس کے راستے میں روک ڈالنے کی ذمہ داری حکومرانوں پر عائد ہوتی ہے۔صحافی ذرائع نشرواشاعت میں فحاشیت و عریانیت کو فروغ دینے کی بجائے ان کے مضمرات و نقائص کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں حیا پاک دامنی کی اہمیت و فوائد کو بیان کرسکتاہے ۔الیکٹرانک میڈیا پر ایسے پروگرام نشرکئے جاتے ہیں جو برائی سے نفرت پیداکرنے کی بجائے معاشرے کو بدکاری کی طرف دعوت دیینے کا موجب بنتے ہیں۔پولیس جو کہ اس عمل کی سرپرستی کرتی ہے اور اپنا حصہ وصول کرکے اس کلنگ کے ناسور کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔مولوی و صوفی صرف گناہ کے بیان اور اس کی سزا کے ذکر کرنے اور اس عمل میں لت پت افراد کو حقیر ذلیل سمجھنے ہی پر اکتفا کرنے کی بجائے وہ ان اسباب و عوام پر غورفکر کریں کہ جس کے باعث معاشرہ میں یہ برائیاں اور بدکاریاں فروغ پاتی ہیں اور پھر اپنا قائدانہ کردار اداکرتے ہوئے مسجد کے منبر و محراب سے ان کے تدارک کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں ۔
واضح رہے کہ دین اسلام کسی فرد کی ذات تک صرف محدود ہونے والا دین نہیں ہے بلکہ اس کا مقتضی اجتماعی ہے اور اس نے نوع بشر کو ماں کی گود سے قبر کے آغوش تک سبھی امور کی رہنمائی کردے رکھی ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے کہ مولوی فرقہ واریت و مسلکیت اور گداگری و بادشاہوں ،سرداروں اور طاقتور طبقوں کی کاسہ لیسی میں دھت ہے اس کو فرصت ہی نہیں کہ وہ معاشرہ کو جہیز کی لعنت سے آگاہ کرسکے ،اس کو معلوم ہی نہیں کہ گھر میں بیٹھی جوان بیٹی کے مسائل سے آگہی حاصل کرکے اس کے تدارک کی جستجو کو بیان کرسکے ،انہیں وقت نہیں ملتا کہ وہ شادی بیاہ میں سادگی کو بیان کریں کہ نبی کریم ۖ نے اپنی صاحبزادی کا رشتہ کس قدر سادگی سے فرمایا تھا اور پھر حضورۖ کا ہر عمل صرف کہنے کی حدتک نہیں عمل میں لانے کی حدتک بھی اسوہ حسنہ ہے،ان کو پتہ ہی نہیں کہ والدین پر بچوں کی تربیت اور ان کے شادی بیاہ میں عجلت کی اہمیت و ضرورت کیا ہے؟کہ وہ بیان کرکے والدین کو خبردار کرسکیں کہ بچوں کی تربیت میں ذراسی غفلت اور ان کی شادی بیاہ میں غفلت و تعطل کس قدر ان کے لئے عنداللہ وبال جان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی زندگی میں بھی سوہانِ روح بھی بن سکتاہے۔
Wedding
گھرسے بچیوں کا نکل کر شادی کرنا۔۔۔۔ ،عشق و محبت کے نام پر خفیہ جنسی تعلقات قائم کرنا ۔۔۔۔۔بچے اور بچیوں کا سرعام والدین کے ساتھ طوفان بدتمیزی پیداکرنا ۔۔۔۔۔طلاقوں کی روز بروز بڑھتی شرح ۔۔۔۔یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کو سوچ کر کلیجہ منہ کو آتاہے مگر والدین ان سب امور سے غافل ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور معاشرے میں آگہی کی حقیقی مہم کے ذمہ دار اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے ادارہ مسجد و مدرسہ کے اصحاب اپنی اہم اور اصل ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے ہیں اس کے اسباب کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خداجانتاہے یا وہ خود لیکن یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ معاشرہ جس قدر بدتر ہوگا اس کی اسی قدر ذمہ داری مذہبی حلقوں پر عائد ہوگی۔
راقم شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتاہے کہ معاشرے میں جس قدر بھی خرابیاں اور برائیاں موجود ہیں ان سے صرف مسلمان ہی نہیں (جس کو اسلامی تعلیمات کے سبب معصیت سے روکنے کی تعلیم دی گئی ہے)تمام انسان نفرت کرتے ہیں اور اس ظلمت و تاریک دنیا سے باہر نکلنے کی خواہش دل میں لئے ہوئے ہیں مگر ان تک کوئی سبیل راہ کی راہنمائی کرنے والا نہیں ہے ،ان سیے سبھی لوگ نفرت تو کرتے ہیں مگر یہ لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ انہوں نے اس زندگی کو کیوں اور کس وجہ اور کن اسباب کے باعث اختیار کرکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اس لئے کہتا ہوں کہ برائی سے نفرت لیکن۔۔۔۔۔۔۔!یہ پیرایہ ہرفرد بشر کے لئے خالی چھوڑرہاہوں کہ وہ اپنی حسب استطاعت اس کو مکمل کرے۔ دیس کی بات
Ateeq Rehman
تحریر: عتیق الرحمن atiqurrehman001@gmail.com 03135265617