کیا سابق جرمن فوجی تارکین وطن کو مارنا چاہتے تھے؟

Soldiers

Soldiers

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) ایک جرمن جریدے کی رپورٹ کے مطابق ملکی فوج کے سابق چھاتہ بردار اور ریزرو فوجی تارکین وطن پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

جرمن حکام نے ان الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ جرمن فوج کے ریزرو فوجیوں کا ایک گروپ تارکین وطن کو مبینہ طور پر مارنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ بات جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل نے جمعہ یکم اکتوبر کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھی ہے۔

جرمنی کے ایک شمالی شہر لوئنے برگ کے دفتر استغاثہ کے مطابق جرمن صوبہ لوئر سیکسنی میں ملٹری اسپورٹس گروپ سے تعلق رکھنے والے سابق چھاتہ بردار اور ریزرو فوجی تارکین وطن کو قتل کرنا چاہتے تھے۔

ڈیئر اشپیگل کی رپورٹ کے مطابق ژینس جی، نامی ایک ریزرو لیفٹیٹننٹ کرنل نے ملٹری اسپورٹس ایکسرسائز کا انتظام کیا تھا۔ لوئنے برگ کا دفتر استغاثہ 37 سے 53 برس کی عمر کے نو مشتبہ افراد کے خلاف ایک مسلح گروپ کے رکن یا پھر اس کی سربراہی کرنے کے الزام میں تفتیش کر رہا ہے۔

دفتر استغاثہ کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر ڈیئر اشپیگل کو بتایا کہ ابتدائی شبہ یہی ہے کہ ان کے اس منصوبے کے پیچھے غیر ملکیوں سے نفرت کے جذبات کارفرما تھے۔

گزشتہ ماہ تفتیش کاروں نے لوئر سیکسنی، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور برلن سمیت جرمنی کی مختلف ریاستوں میں آٹھ مختلف عمارات میں چھاپے مارے تھے۔ ان چھاپوں میں اسلحہ اور ہتھیاروں کے علاوہ اس طرح کا مواد بھی ملا تھا جس سے اندازہ ہوا تھا کہ ریزرو فوجیوں کا یہ گروپ انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہے۔

جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کی رپورٹ کے مطابق تفتیش کاروں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ژینس جی کے جرمن وزارت دفاع کے ایک اہم اہلکار کے ساتھ بھی رابطے تھے۔ ستمبر کے وسط میں معمول کے سکیورٹی چیک کے دوران جرمن فوج کی ملٹری کاؤنٹر انٹیلیجنس سروس کو معلوم ہوا کہ اس سابق فوجی اہلکار میں دائیں بازو کے شدت پسندانہ رویے موجود ہیں۔ اس اہلکار کے فون سے ژینس جی کے ساتھ رابطوں کا بھی پتہ چلا۔

ملٹری کاؤنٹر انٹیلیجنس سروس کے مطابق وزارت دفاع اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے کیونکہ مذکورہ اہلکار کو ‘اسٹریٹیجی اینڈ آپریشن‘ ڈیپارٹمنٹ میں حساس معلومات تک رسائی حاصل تھی۔

ملٹری کاؤنٹر انٹیلیجنس سروس کے مطابق وزارت دفاع اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے کیونکہ مذکورہ اہلکار کو ‘اسٹریٹیجی اینڈ آپریشن‘ ڈیپارٹمنٹ میں حساس معلومات تک رسائی حاصل تھی۔

جرمنی کی وزیر دفاع آنے گریٹ کرامپ کارین باور کے ایک ترجمان کے مطابق یہ وزارت دائیں بازو کی شدت پسندی کے معاملے کو کسی طور پر نظر انداز نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم ہر ایک معاملے کی بھرپور طریقے سے تفتیش کر رہے ہیں کیونکہ جرمن فوج یا وزارت دفاع میں شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘

جرمنی کی فوج اور پولیس میں حالیہ چند برسوں کے دوران دائیں بازو کی شدت پسندی کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

جرمن ملٹری انٹیلیجنس نے جنوری 2020ء میں رپورٹ کیا تھا کہ ملکی فوج میں قریب 600 مشتبہ دائیں بازو کے شدت پسند نظریات رکھنے والے اہلکار موجود ہیں۔

سال 2017ء میں جرمنی کے دو فوجی اڈوں پر نازی دور کی یادگاریں ملنے کے بعد تمام فوجی اڈوں کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ دائیں بازو کے شدت پسند نظریات رکھنے والوں کی اکثریت اسلام اور تارکین وطن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے۔