تحریر: سارہ قریشی، کراچی اللہ تعالی نے اخلاق و عادات کی تمام خوبیاں و کمالات اور اعلیٰ صفات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں جمع فرمادی تھیں۔ آپ کو اللہ تعالی نے ہر قسم کے علوم عطافرمائے تھے حالانکہ آپ ”امی“ تھے ،کچھ پڑھ لکھ ناسکتے تھے۔ نا انسانوں میں کوئی آپ کامعلم تھا اس کے باوجود اللہ نے آپ کو ایسے علوم عطا فرمائے تھے جو کائنات میں کسی اور کو نہیں دیے گئے۔ آپ کو کائنات کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں مگر آپ نے دنیاوی مال و جاہ کے بدلے ہمیشہ آخرت کو ترجیح دی۔ آپ علم و حکمت کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے، سب سے زیادہ محترم، سب سے زیادہ منصف، سب سے زیادہ حلیم وبردباد ، سب سے زیادہ پاک دامن و عفیف اور لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے اور لوگوں کی ایذا رسانی پہ سب سے زیادہ صبروتحمل کرنے والے تھے دیکھنے والوں کی نظر میں آپ کا چہرہ انور نہایت رعب و دبدبہ والا روشن و چمکدار ایسا کہ چودھویں کا چاند چمکتا ہے۔ جب آپ مسکراتے تو گویا دیواروں پر مسکراہٹ کی چمک پڑتی تھی۔
شاعرحسان بن ثابت کہہ اٹھے میری آنکھوں نے کبھی آپ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا عورتوں نے آپ سے زیادہ کوئی صاحب جمال نہیں جنا آپ کو ہرعیب سے پاک پیدا کیا گیا ہے جیسے آپ اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیے گئے ہوں
آپ کااخلاق قرآن کریم تھا ۔ اس کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ قرآن میں جواخلاق وصفاتِ محمودہ مذکور ہیں آپ میں وہ تمام موجودتھیں ۔آپ نے کبھی اپنے ذاتی معاملے اورمال ودولت کے سلسلے میں کسی سے انتقام نہیں لیا اورکسی سے بدلہ لیا توصرف اللہ کے لیے لیا۔ کفار، منافقین اور مشرکین نے آپ سے جنگ و جدل کی اورآپ کو شدید رنج و الم پہنچایا مگر اس حال میں بھی آپ عفو و درگزرکی اعلیٰ مثال بنے رہے اورکفارکے لیے بد دعا کرنے کے بجائے دعا فرمائی ۔ آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اشرف ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ بہادر اور فیاض تھے۔ آپ کے مزاج میں اعتدال تھا سخت گونا تھے اور نہ بازاروں میں گھومنے والے اور خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے اور کبھی برائی کابدلہ برائی سے نا دیتے بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔ حیا سے آپ کی نگاہ کسی شخص پہ نا ٹھہرتی تھی اورکسی نامناسب بات کا اگرکسی ضرورت سے ذکر کرنا پڑتا تو کنایہ فرماتے۔
کشادہ دل بات کے سچے اور طبیعت کے نرم تھے۔ امیر و غریب آزاد و غلام کسی کو خاص نا کرتے بلکہ سب کی دعوت اور حقیر سے حقیر ہدیہ بھی قبول فرما لیتے تھے نا صرف یہ بلکہ خود بھی ہدیہ دیا کرتے۔ لوگوں کی عیادت کے لیے جایا کرتے معذرت کرنے والے کا عذر قبول فرما لیتے اور کبھی اپنے اصحاب کے درمیان پاو ¿ں پھیلائے ہوئے بیٹھے نہیں دیکھے گئے جس سے اوروں پر جگہ تنگ ہوجائے اور جو آپ کے پاس آتا اس کی خاطر تواضع کرتے حتی کہ بعض اوقات آنے والے مہمان کے لیے اپنا کپڑا خود بچھاتے اور تکیہ خود اٹھا کر پیش کرتے کسی کی بات درمیان سے نا اچکتے اور جب خود کسی سے ہم کلام ہوتے تو آہستہ اور ٹھہر کر ہر لفظ ادا کرتے یعنی گفتگو میں بھی جلد بازی سے کام نا لیتے اکثر تبسم فرماتے۔
خوش مزاجی اور خوش اخلاقی میں سب سے زیادہ بڑھ کر تھے۔ ان تمام اخلاقِ کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بےشک اللہ رب العزت نے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اخلاق وکردار کے اعلیٰ منصب پہ فائز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک آنے والی انسانوں کے لیے بہترین نمونہ عمل بناکر بلند درجات سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کما حقّہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین