اقتباس از ناول عشق کرب ے ذات سن صاحبہ مجھے دنیا کی نظروں میں رہنے کی چاہ اور طلب ہی کب ہے تم تو جانتے ہو میرے محبوب مجھ کو لاگی بس تیری لگن ہے
یہ عشق کی ٹھنڈی اگن ہے جس میں اک میٹھی جلن ہے درد کا نیلا گگن ہے اس میں ہجر کی گہری چبھن ہے
میلے تن میں جیسے اجلا من ہے اے میرے محبوبِ حقیقی تو تو جانتا ہے ناں کے جے کر دل تیرے باجوں کیسے ہور نو ں چاہوے تے کافر آکھیں جے کر عشق دا سجدہ کر کیسے ہور لیی رو وے تے کافر آکھیں
میری طلب اور لگن تو بس تم سے تم تک ہے میرے مالک میرے محبوب میرے الله تو توقف ہے میرے حال سے کہ میں تو صرف تیری نگاہ میں رہنے کے لئے ساری دنیا کی نظروں سے چھپ جانا چاہتی ہوں
شعور کے ٹوٹے پروں کے ساتھ تھ خاک ہوں مگر طلب کی اڑان بھر کے فلک تک جانا چاہتی ہوں اک شجرِ بے ثمر ہوں مگر جھک جانا چاہتی ہوں برہنہ پا چلتے چلتے سفرِ زیست سے تھک جانا چاہتی ہوں
زندگی کے اس پڑاؤ پے اب رک جانا چاہتی ہوں کیوں کے بے قول خوش نوا شا یر کے میرا شام سلونا شاہ پیا ہمیں مار گی تیری چاہ پیا