کراچی (جیوڈیسک) فارن ایکس چینج ریگولیشن (ترمیمی) ایکٹ 2016 کے نفاذ کے ذریعے زرمبادلہ کے کاروبار سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ضوابطی اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
مذکورہ ایکٹ کے ذریعے فارن ایکس چینج ریگولیشن ایکٹ (ایف ای آر اے) 1947 میں کی جانے والی اہم تبدیلی نئے سیکشن 23K کا اضافہ ہے، جس کے تحت اسٹیٹ بینک کو اپنے دائرہ کار میں آنے والے مجاز ڈیلروں (بینک) اور ایکس چینج کمپنیوں پر زرِ مبادلہ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے عائد کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
مذکورہ سیکشن کے مطابق ادارے کا ہر ڈائریکٹر، منیجر، افسر، ایجنٹ وغیرہ، ایسی صورت میں خلاف ورزی کا مرتکب تصور کیا جائے گا جب خلاف ورزی کا ارتکاب اس کے علم میں ہو، یا اس کی مرضی شامل ہو، یا اْس نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مطلوبہ احتیاط نہ کی ہو۔ماضی میں متعلقہ قانون کے نفاذ کے بعد مذکورہ ترمیم اس لیے ضروری سمجھی جا رہی تھی کہ زرمبادلہ کے کاروبار کی آزادانہ اجازت دے دی گئی تھی۔
جس کے بعد اس میں خاطرخواہ اضافہ ہوا تھا۔ لہٰذا بینکوں کی زرِ مبادلہ سرگرمیوں اور ایکس چینج کمپنیوں کے کاروبار کے موثر انضباط کے لیے اسٹیٹ بینک کو متعلقہ نفاذی اختیارات کی ضرورت تھی تاہم چونکہ مذکورہ اختیارات موجود نہ تھے چنانچہ جرمانے عائد کرنے کے لیے عدالتی کارروائی کے طویل عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔
مزید برآں، مذکورہ ایکٹ کی کسی شق کی خلاف ورزی ہونے پر اسٹیٹ بینک کے پاس محض بینک یا ایکس چینج کمپنی کا لائسنس معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار تھا، جو اکثر و بیشتر خلاف ورزی کے مقابلے میں زیادہ سخت اقدام ہوتا تھا۔ ایکٹ میں نئے سیکشن کے اضافے کے بعد کسی حکم نامے سے متاثرہ شخص کو اسٹیٹ بینک کے متعلقہ ڈپٹی گورنر سے اپیل کرنے کا حق بھی تفویض کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایف ای آر اے 1947 کی مختلف دفعات میں دیگر متعلقہ ترامیم کی گئی ہیں، جن کے تحت اسٹیٹ بینک کے دائرہ کار میں آنے والے اداروں کے علاوہ زرمبادلہ کے ضمن میں انفرادی خلاف ورزیوں کے مقدمات کے حوالے سے ٹریبونل اینڈ فارن ایکس چینج ایڈجوڈیکیشن کورٹ کا کردار واضح طور پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔