جوش نہیں ہوش کی ضرورت

Protest

Protest

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
16 دسمبر کو پوری قوم نے آرمی پبلک سکول پشاورکے شہیدوں کادِن منایا ۔شہیدوںکے سوگ میںسندھ سمیت تمام صوبوں کے تعلیمی ادارے بندرہے ،ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی ،پورے ملک میں تقریبات منعقدہوئیںاورسارا دِن ملّی نغمے گونجتے رہے ،شمعیں روشن ہوئیں اورریلیاں نکلیں ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ نغموں”بڑا دشمن بنا پھرتاہے جو بچوںسے ڈرتاہے ” اور ”مجھے دشمن کے بچوںکو پڑھانا ہے” نے سانحہ پشاورکی یادتازہ کردی ،بھولے توہم پہلے بھی نہیںتھے کہ یہ سانحہ بھلایاجا ہی نہیںسکتا لیکن تقریبات اورنغموںنے ایسی فضاء قائم کردی کہ یوںمحسوس ہوتاتھا جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔وزیرِاعظم صاحب نے وفاق کے زیرِانتظام 122 سکولوں کوشہیدوں کے نام سے منسوب کرنے کاحکم دیااور پنجاب میںمیاں شہباز شریف صاحب نے بھی ایساہی حکم صادرفرمایا ۔اسی سانحہ کی وجہ سے 2014ء میںکپتان صاحب اپنا 126 روزہ دھرنا ختم کرکے قومی دھارے میں شامل ہوئے اوراسی سانحے کی بنا پرآپریشن ضربِ عضب میںتیزی آئی۔

آئی ایس پی آرکے مطابق 3400 دہشت گردجہنم کاایندھن بنے اور آج یہ عالم کہ طالبان نامی دہشت گردوںکو کہیںجائے پناہ نہیںمِل رہی ۔16 دسمبرکوہی پاکستان دولخت ہوا ۔نسلِ نَو تو شاید بے خبرلیکن ہمیں 16 دسمبر1971ء کی وہ دوپہر اچھی طرح یادجب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میںجنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑاکے سامنے ہتھیار ڈالے اور 90 ہزار جنگی قیدی بنے ۔کرب کے وہ لمحات اگر ہم بھلانابھی چاہیںتو نہیںبھُلا سکتے جب اُدھر پلٹن میدان میںہماری فوج ہتھیارڈال رہی تھی اوراِدھر شراب کے ڈرم میںبیٹھا جنرل یحییٰ خاں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ کسی ایک محاذ سے وقتی طورپر پیچھے ہٹ جانے کامطلب یہ نہیںکہ شکست ہوگئی ،جنگ جاری ہے اورجاری رہے گی ۔حالانکہ سبھی جانتے تھے کہ قائدِاعظم کی کاوشوںکا ثمراوراقبال کے خوابوںکی تعبیرگندی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ یہ سانحہ ایسا جانکاہ تھا کہ اُس روزگھروںکے چولہے نہ جلے اورپوری قوم میںصفِ ماتم بچھ گئی۔ 16 دسمبر2o14ء کے سانحے پربھی شایدہی کوئی آنکھ ایسی ہوجو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ یہ زخم ابھی تازہ ہے اِس لیے ہم اسے بھلانہیں پائے لیکن 1971ء کاسانحہ تووقت کی دھول میںگُم ہوگیا۔

سچ تویہی کہ ہم نے سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھا نہ سانحہ پشاورسے۔ اگرایسا ہوتاتویہ عالم ہرگزنہ ہوتاکہ سندھ کی صوبائی حکومت کراچی کوبے یارومددگار چھوڑنے کے درپے جبکہ کراچی کاہر طبقۂ فکرسڑکوں پریہ احتجاج کرتاہوا کہ رینجرزکو اختیارات دو۔ سبھی جانتے ہیںکہ یہی وہ بہادر فورس ہے جس نے قربانیاں دے کرکراچی میںاِس حدتک امن بحال کردیا کہ اب لوگ بے خوف ہوکر رات گئے تک سڑکوںپر گھومتے رہتے ہیں۔ 5 دسمبرکو رینجرزکے اختیارات ختم ہوگئے تووزیرِاعلیٰ سیدقائم علی شاہ نے کہہ دیاکہ وہ رینجرزکے اختیارات بحال کرنے کوتو تیارہیں لیکن اِس کے لیے صوبائی اسمبلی کی منظوری لیناضروری ہے۔ پچھلی صدی کے کہن سالہ سیّدقائم علی شاہ کی یادداشت شایدجواب دے چکی ہے ۔اگرایسا نہ ہوتاتو اُنہیں اتناتو یادہوتا کہ پچھلے اڑھائی سالوںمیںاُنہوںنے ایک باربھی اپنے ایگزیکٹو آرڈرزکی صوبائی اسمبلی سے تصدیق نہیںکروائی ۔شایداُس وقت شاہ صاحب کے ”بِگ باس” مطمٔن تھے کہ رینجرزصرف ایم کیوایم کوہی ”رگڑا” دے گی لیکن جونہی رینجرزنے کرپشن میںدھنسے اداروںپر ہاتھ ڈالاتو کرپشن کے شہنشاہ کے کان کھڑے ہوگئے ۔اُس نے پہلے تواینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکی دی

Corruption

Corruption

لیکن جب بات نہ بنی توچپکے سے دبئی کھسک لیے ۔قصورقائم علی شاہ کانہ سیّدخورشید شاہ کاکیونکہ وہ تودبئی میںبیٹھے کرپشن کے شہنشاہ کے غلامِ بے دام ۔شہنشاہ سلامت کوملک کی پرواہ نہ قوم کی ، صرف اپنے اثاثوںکی جودنیاکے انتہائی مہنگے اورترقی یافتہ ممالک میںجابجا بکھرے ہوئے ۔بمبینوسینمامیں ٹکٹیںبلیک کرنے والے شہنشاہِ معظم آج پاکستان کے امیرترین شخص ہیں ۔حیرت ہے کہ اُنہوںنے یہ سفرکیسے طے کیااورایوانِ صدرتک رسائی کے لیے کون سی راہ اختیارکی ۔معاملات توتب بگڑے جب رینجرزنے شہنشاہ سلامت کے دستِ راست اورمحرمِ رازڈاکٹر عاصم حسین پرہاتھ ڈالا۔ تب اُنہیںاحساس ہواکہ اُن کے گردتیزی سے شکنجہ کساجا رہاہے ۔اُنہوںنے اپنے غلامان کوحکم صادرفرمایا کہ جتنی جلدی ممکن ہورینجرز سے چھٹکارا حاصل کیاجائے لیکن اب معاملہ اتناآسان نہیںرہا تھاکیونکہ ”شریفین”بہرحال کراچی کی روشنیاں لوٹانے کے لیے یکسو تھے ۔محترم جنرل راحیل شریف نے کراچی میںبیٹھ کریہ اعلان کیاکہ آخری دہشت گردکے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا ،یہی الفاظ میاںنواز شریف صاحب نے بھی اپنے خطاب میںدہرائے۔ اب سندھ حکومت ڈاکٹرعاصم حسین کی رہائی کے بدلے رینجرزکو اختیارات دینے کے لیے تیارلیکن مرکزی حکومت اِس کے لیے آمادہ نہ فوج۔

بیباک وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے لگی لپٹی رکھے بغیریہ کہہ دیا ”ایک شخص کوبچانے کے لیے آپریشن کومتنازع بنایاجا رہاہے۔الزامات کاسلسلہ بندنہ ہواتو ڈاکٹرعاصم کی وڈیوسامنے لے آؤںگا۔ سندھ حکومت کسی غلط فہمی میںنہ رہے ۔رینجرزکو تنہانہیں چھوڑیںگے ۔وہ کراچی میںوفاق کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کام کرتے رہیںگے”۔ درجوابِ آںغزل وزیرِاعلیٰ سندھ کے مشیرمولا بخش چانڈیونے کہا”چودھری نثاردھمکیاں نہ دیں ،وڈیوسامنے لے آئیں۔جو آپشنزہیں استعمال کریں ،نتائج سے ڈرنے والے نہیں،اگرسندھ کے خلاف کارروائی کی گئی توبات دورتک جائے گی”۔

مولابخش چانڈیوکے بیان کے اگلے ہی روزقائدِحزبِ اختلاف بھی بول اُٹھے ”سندھ میںگورنرراج لگاناہے تولگائیںیا ایمرجنسی لگادیں مگردھمکیاں نہ دی جائیںلیکن ایک بات سُن لیںکہ اب جنگ دورتک جائے گی”۔ یہ لفظی بڑھک بازی تاحال جاری لیکن ہمیںیقین کہ بالآخر رینجرزکو اختیارات دینے ہی پڑیںگے کیونکہ سامنے صرف میاںنواز شریف ہی نہیں ،جنرل راحیل شریف بھی ہیں۔ نوازلیگ کامقابلہ توشاید پیپلزپارٹی سیاسی چالبازیوں سے کرلے لیکن قربانیوںکی لازوال داستانیں رقم کرنے والی افواجِ پاکستان کامقابلہ کون کرے گا۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر