تحریر: ابنِ نیاز آج کل کی سب سے گرم خبر ایگزیکٹ کے حوالے سے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہو اور پاکستانی اربابِ اختیار نے کوئی جواب دیا ہو۔ جب سے پاکستان امریکہ پنجہ لڑا ہے یعنی ١٩٥٠ ء میں جب پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم نوابزادہ خان لیاقت علی خان نے امریکہ یاترا کی تھی تب سے امریکہ کو احساس ہو گیا تھا یا پھر شاید اسکی چھٹی حس اتنی طاقتور تھی جو اس کو علم ہو گیا تھا کہ پاکستان اس خطے میں جلد یا بدیر انتہائی اہمیت اختیار کر جائے گا۔ تب سے امریکہ نے یہاں اپنے زہریلے ناخنوں سے کریدنا شروع کیا اور کریدتے کریدتے اپنے پنجے اتنے مضبوطی سے گاڑ لیے کہ اب بظاہر نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔
بس ایک ہی صورت ہے کہ جس طرح کسی زخم کی وجہ سے بدن کے کسی حصے میں زہر پھیل جاتا ہے تو جسم کے اس عضو کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کا پنجہ بے شک یہیں رہے، اسکے بازو کو کاٹ دیا جائے۔ آہستہ آہستہ یہ پنجہ بالآخر کسی عجائب گھر میں رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔ اور امریکہ کا بازو اس سے قطع تعلق کرنا ہے۔ سب مسلمان ملک اس سے قطع تعلق کر لیں۔ اپنا اپنا سرمایہ وہاں سے نکال لیں۔ اپنے ملک سے ان کی مداخلت جس طرح سے بھی ہے اس کو ختم کر دیں۔اگر وہ کوئی ترقیاتی کام کر رہا ہے تو وہی کام مسلمان ممالک کے افراد بھی کر سکتے ہیں۔ دیکھیں پھر اس بازو کا کیا ہوتا ہے۔
اگر امریکی حکومت براہِ راست پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بھی کرتی تو پھر بھی اسکے باسی یہ گل کھلا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکہ کا نعرہ ہے کہ بولنے کی آزادی، جو صرف وہاں کے نسلی رہائشی افراد کے لیے ہے۔ کوئی اور اس طرح کی آزادی کا نعرہ تو لگا کر دیکھے، پھر دنیا اس کو نہیں دیکھے گی۔اسی طرح کی ناجائز آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب کی وار جو پاکستان پر کیا گیا وہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی طرف سے تھا۔اسکے رپورٹر مسٹر ڈیکلین والش نے اپنے اس اخبار کے توسط سے پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کرکے رکھ دیا۔گزشتہ آٹھ دس سالوں سے ایگزیکٹ Axact کمپنی پاکستان میں کام کر رہی تھی۔
USA
اور امریکہ اس سے بے خبر تھے۔ ہے نا حیرت کی بات۔ جس کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے کسی مقام پر کوئی پتہ بھی بلاوجہ ہلے تو اسکا بھی اسے علم ہو جاتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عرصہ دس سال سے ایک کمپنی کام کر رہی ہو اور بقول مسٹر والش غلط طریقے سے کر رہی ہو اور امریکہ کو اسکی خبر نہ ہو۔اسکی تین سو ویب سائیٹس ہوں اور ساری دنیا کی انٹرنیٹ کے ذریعے ہر بندے کی ذاتی ای میل تک چیک کرنے والے امریکہ یا اسکے لے پالک اسرائیل کو ان ویب سائیٹس کی خبر نہ ہو۔میرا ذہن تو یہ بات نہیں مانتا۔امریکہ میں ہی ایک کتے کو ایم بی اے کی ڈگری مل جائے اور وہاں کسی کو علم نہ ہو۔حیرت ہے ، کمال ہے۔
مسٹر والش نے یہ رپورٹ شائع کرنے کے بعد بیان دیا کہ وہ تو پاکستان تعلیمی میدان میں ،کے حوالے سے تحقیق کرنے نکلا تھا کہ سامنے یہ آگیا۔ اور جب اس نے تفصیل میں جانا شروع کیا تو اصل حقائق آشکار ہونا شروع ہوئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طرح کے جعلی کاروبارکرنے والے کیا اتنا ہی کچا کام کرتے ہیں اخباری رپورٹر کے پاس تو ساری تفصیل آجاتی ہے اور کمپنی کو علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ پاکستان کے حوالے سے کام کر رہا ہے، دنیا بھر سے معلومات اکٹھی کر رہا ہے، اور پاکستان والے بے خبر ہیں۔ ایگزیکٹ والوں نے جو کچھ بھی کیا کیا وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتا۔ مجھے ہفتے میں ایک آدھ بار ای میل آتی ہے کہ آپ کا مائیکرو سافٹ کی قرعہ اندازی میں پانچ لاکھ پائونڈز کا انعام نکلا ہے۔
آپ مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کریں، آپ کو تفصیل سے بتایا جائے گا کہ آپ وہ انعام کیسے وصول کر سکتے ہیں۔اور جب میں سارے مراحل طے کر چکا ہوتا ہوں تو انکا آخری ای میل ہوتا ہے کہ اب آپ اڑھائی ہزار پائونڈ فلاں اکائونٹ میں جمع کروائیں جو کہ پروسسنگ فیس ہو گی۔ تب آپ کو بینک کی طرف سے پانچ لاکھ پائونڈ کا چیک جاری کیا جائے گا۔میں نے اکثر اس طرح کی آخری ای میل کاجواب یہ دیتا ہوں کہ وہ چونکہ پروسس کروا رہا ہے تو پانچ لاکھ میں سے دو لاکھ اس کے۔تو پھر اس کا جواب نہیں آتا۔اور ان سب ای میل کے پیچھے جو آئی پی استعمال ہو رہا ہوتا ہے وہ اکثر بیشتر مملکت امریکہ یا براعظم امریکہ کے کسی نہ کسی ملک کا ہوتا ہے۔لیکن کسی کو وہ فراڈ نظر نہیں آتے۔
سنا ہے کہ امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ کے قریب جعلی ڈگریاں تقسیم ہوتی ہیں جن میں چالیس فیصد ایم بی بی ایس کی ہوتی ہیں اور باقی ساٹھ فیصد ایم بی اے، ایل ایل بی، انجینئیرنگ کی ہوتی ہیں۔برطانیہ کی ہر بڑی یونیورسٹی کی ڈگری وہاں سے مل جاتی ہے بنا یونیورسٹی میں کوئی کلاس لیے ہوئے۔ جس کا ایک ثبوت ہمارے سامنے ایک سابقہ صدر کے بیٹے کا ہے۔ یقینا فاصلاتی نظام تعلیم کا استعمال کیا گیا ہے، لیکن میرا سوال ہے کہ کیا کریڈٹ آورز کچھ نہیں ہوتے۔ سال میں تین ماہ یونیورسٹی سے دور اپنے وطن میں رہا۔ پھر سیاست میں بھی شرکت کی اور جاری ہے، تو کہاں گیا وہ قانون۔ مسٹر والش کو اپنے ملک میں یا کسی اور ملک کے نظام تعلیم میں کچھ نظر نہیں آتا۔ ویسے اگر آتا بھی ہوتو وہ امریکن ہے، اس نے اپنے وطن کی توہین ہر گز نہیں کرنی۔نہ ہی کسی برطانیہ یا جرمنی یا فرانس کی کرنی ہے کہ وہ مسلمان ملک نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی پاکستان ہے۔ اور اگر وہاں کے میڈیا کو بھی علم ہو تو بھی میڈیاکو آزادی کے باوجود یہ آزادی ہر گز نہیں کہ وہ اپنے ملک کو تمام دنیا میں بدنام کرتا پھرے۔یہ تو پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ہے جس کو پاکستان کی توہین کرنے کے لیے بس کوئی خبر چاہیے۔ پھر وہ ہر منٹ کے بعد بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔
Pakistani Media
اب یہی صورت حال ایگزیکٹ کمپنی کی ہے۔ مسٹر ڈیکلین نے نیویارک ٹائمز میں کیا خبر شائع کی، پاکستانی میڈیا کو جیسے پر لگ گئے۔ جیسے تمام دنیا میں اور کوئی خبر اسکے بعد رہی ہی نہیں۔ سب کچھ ختم ہو گیا، گویا دجال نکل آیا کہ بس دنیا ختم ہونے کو ہے تو ایگزیکٹ ہی چلاتے جائو۔مسٹر ڈیکلین والش نے توتین سے چار ماہ لگائے ایگزیکٹ کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے میں ۔اور یہ معلومات کہیں باہر سے نہیں ملیں بلکہ اس کمپنی کے اندرونی سٹاف سے ہی لیں، جن میں سے ایک نام یاسر جمشید کا ہے، جو کہ وہاں کوالٹی کنٹرول آفیشل تھا۔کچھ معلومات وہاں سے لیں، کچھ نیٹ سے سرچ کیا۔ اس طرح سارا کچا چٹھا سامنے لایا۔
لیکن مجھے ذاتی طور پر اس بات کا بہت افسوس ہوا جب ہمارے میڈیا نے نیویارک ٹائمز کو ہی اپنی خبر کا حوالہ بنایا اور مسلسل چار پانچ دن تک اسی کے حوالے سے خبریں چلاتا رہا۔ہر پانچ دس منٹ بعد ایگزیکٹ اور بول میڈیا گروپ کی خبر ہوتی تھی۔ جیسے ساری خبریں ختم ہو گئی ہوں۔ کسی ایک چینل والے نے یہ نہیں کہا آخر امریکہ کو یا مسٹر والش کو ساری دنیا میں سے ایک پاکستان ہی نظر آیا تھا یونیورسٹیاں ساری امریکہ کی ، بینک اکائونٹ امریکہ کے بینکوں کے استعمال ہو رہے ہیں۔ جہاں ہر اکائونٹ کا چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے، امریکی ایف آئی اے اور دوسری امریکی خفیہ ایجنسیاں ہر ہر فرد کا ذاتی ڈیٹا تک چیک کرتی ہیں تو یہ ان کو علم کیوں نہ ہوا۔دوبئی میں ان کے اکائونٹ چل رہے ہیں، کوئی دیکھنے والا، پوچھنے والا نہیں۔
مجھے تو اس کے پیچھے بھی امریکہ کی یہ سازش نظر آرہی ہے کہ مسٹر شعیب کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے تعلیمی نظام کو دنیا میں فیل قرار دیا جائے۔ پہلے ہی پاکستان کی یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی رینکنگ کافی نیچے ہے تو یہ سکینڈل اس رینکنگ میں مزید نشیب کاباعث ہی بنے گا۔یہ تو ممکن ہی نہیں کہ امریکہ کی یونیورسٹی کی جعلی ڈگریاں ہزاروں کی تعداد میں تقسیم ہو رہی ہوں، اور کسی کو علم نہ ہو۔ کیونکہ ظاہر ہے ان ہزاروں لوگوں نے نوکریاں بھی تو حاصل کی ہوں گی۔ایف آئی اے پاکستان والوں نے اب ایگزیکٹ کا ڈیٹا لے کر اس کو ڈی کوڈ کیا ہے اور ان کو بہت سا ثبوت ملا ہے ایگزیکٹ کے خلاف۔ لیکن میں یہ عرض بھی ضرور کروں گا کہ صرف ان ثبوتوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف ایکشن نہ لیا جائے بلکہ آٹھ دس سال پہلے کی کڑیاں ضرور تلاش کی جائیں۔ اس میں امریکہ ، اسرائیل وغیرہ کا ہاتھ ضرور دیکھا جائے۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ صرف مسٹر ڈیکلین والش ایک اخبار میں اپنی مرضی سے ایک فراڈ چھاپے اور امریکی حکومت کو علم نہ ہو۔پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے، اور یقینا ہے۔