الزمات کی سیاست، انجام کیا ہو گا

Politics

Politics

تحریر : راشد علی راشد اعوان
وفاقی سطح پر مرکزی سیاستدانوں کے دیکھا دیکھی ہزارہ ڈویژن میں بھی الزامات کی سیاست نے اپنے پنجے گاڑھنے شروع کر دیے ہیں،ہزارہ ڈویژن میں ایک ہی خاندان اور ایک گھر میں مختلف جماعتوں سے نظریات رکھنے والے بھائی موجود ہوتے تھے جن کی سیاسی ہمدردیاں اور سیاسی جماعتیں تو اپنی اپنی ہوتی تھیں مگر چولہا ایک ہی ہوتا تھا اور ایک ہی دستر خوان،جس پر وہ اپنی دن بھر کی تھکان اتارتے اور اپنی مزے کی گفتگو کی شیرینی سے سماعتوں میں رس گھولتے تھے،ہزارہ ڈویژن میں ایک لمبے عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اور بعد ازاں مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ(ن) ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی مگر کسی کیخلاف ایسی ترش زبان استعمال نہیں کی جس کی کڑواہٹ سے دوسرے کے دلوں کو میلا کیا ہو،مخلافت نظریات کی گئی ،الزامات بھی لگتے رہے ہیں مگر گالم گلوچ اور بدتہذیبی کو ہر گز ہوا نہیں دی گئی،مگر گشتہ ایک عرصہ سے متعارف ہونے والی سیاست سے تو اب ہر کوئی پناہ مانگنے لگا ہے۔

پورے ملک میں پر پھیلانے والی الزامات کی سیاست نے تو ہماریادب،اخلاق،گفتار،رسم و رواج،رکھ رکھائو انتہائی متاثر کر دیے ہیں،گلی،محلوں تک یہ الزامات کی سیاست پھیلتی چلی گئی ہے اور تو اور ان ہی الزامات کی فضا نے اب تصادم کی صورت اختیار کر رکھی ہے،پہلے پہل زبان سے یا اخباری خبروں کے ذریعے ایک دوسرے کی کھینچا تانی کی جاتی تھی مگر اب چھوٹے بڑے یا سفید بالوں کی بھی تمیز کیے بغیر گریبان تھامنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا،الغرض اگر موجودہ سیاسی کلچر کو اگر برائیوں کی جڑ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا،بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسریاں کہا جاتا ہے،جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے1985کے بلدیاتی انتخابات میں بلدیاتی سطح پر سامنے آنے والے ایسے بہت سے چہرے ہیں جنہوں نے بعد ازاں صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابیاں حاصل کیں اور اپنی حیژیت منوانے میں کامیاب رہے ان میں ایک نام سردار محمد یوسف کا بھی ہے جو گزشتہ35برسوں سے ضلع مانسہرہ کی سیاست کا اہم حصہ ہیں۔

انہوں نے بھی اپنی سیاست کا آغاز بلدیات سے کیا تھا،جنرل پرویز مشرف کے دور میں2001میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی اعظم خان سواتی سمیت کئی چہرے سامنے آئے جنہوں نے وفاق و صوبہ میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا ان میں شجاع سالم خان،مشتاق غنی،سردار یعقوب،سردار ادریس،سید احمد حسین شاہ اور کئی نام ہیں ان ہی ناموں میں تحصیل بالاکوٹ کی سیاست میں اپنی منفرد پہچان کے حامل راجہ خالد نواز ہیں جنہوں نے یونین کونسل کاغان سے اپنی نائب نظامت کیساتھ اپنی حیثیت منوائی،راجہ خالد نواز پاکستان پیپلز پارٹی کا اہم حصہ تھے مگر چند سال قبل پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر کے پااکستان تحریک انصاف کے کارواں میں شامل ہوئے تھے،پھاگل میں ہونے والے اس جلسہ میں وجہیہ الزمان خان،بابر سلیم سواتی،مشتاق خان اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین کی موجودگی میں راجہ خالد نواز نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا تو اس وقت وہ ایک عزم لیکر اٹھے تھے،انہوں نے سیاست میں عمران خان کی شخصیت اور ان کی پارٹی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اسی جلسہ میں وجہیہ الزمان خان سے لیکر مشتاق خان،بابر سلیم سواتی اور تحریک انصاف کے سبھی رہنمائوں نے راجہ خالد نواز کی شمولیت کو وادی کاغان کی سیاست کیلئے اہم اور ان کی انٹری عام انتخابات کیلئے نیگ شگون قرار دی تھی،وجیہ الزمان خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آج وادی کاغان سیاسی لحاظ سے فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

سیاست میں کوئی شے بھی حرف آخر نہیں،راجہ خالد نواز بھی تحریک انصاف کیساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکے اور سابق صوبائی وزیر و پاکستان پیپلز پارٹی ہزارہ ڈویژن کے صدر احمد حسین شاہ کی دعوت پر راجہ خالد نواز ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ اس وقت بن گئے ہیں جب پیپلز پارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ضلع مانسہرہ آمد میں چند گھنٹے باقی ہیں،اور عمران خان کی بھی آمد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے،ایسے وقت میں قدآور شخصیات کا پیپلز پارٹی کا حصہ بننا بلاشبہ پیپلز پارٹی کے عہدیداران کی دوراندیشی اور خاص کر احمد حسین شاہ کی کامیابی ہے،مگر تحریک انصاف والوں نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ اسی طرح شروع کر رکھی ہے جس طرح انہوں نے جاوید ہاشمی کو رخصت کیا یا کوئی اور تحریک انصاف سے راہیں جدا کرے تو ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے،راجہ خالد نواز ایک شریف اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں ،علاقہ میں اپنا ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں مگر انہیں بھی تحریک انصاف کے ورکرز کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنا کر ان کی اہمیت سے ہی انکاری ہیں،گزشتہ سال ہی وجیہ الزمان خان نے راجہ خالد نواز کی آمد پر فتح کا طبل جنگ بجا کروادی کاغان فتح کرنے کی نوید دی تھی اور اب راجہ خالد نواز کی جانب سے پیپلز پارٹی میں واپسی پر توپوں کا رُخ بھی ان ہی کی جانب موڑ دیا گیا ہے جو کہ سیاسی اصولوں اور جمہوری اقدار کے بھی منافی ہے،آتے وقت پھولوں کے ہار ڈالنا اور جاتے وقت ہڈیوں اور جوتوں کے ہار پہنانا تحریک انصاف کی ایک ایسی غلط روایت ہے کہ جو اعلیٰ سطح سے ورکرز تک سب ہی کی ایک سوچ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے،سیاست میں ہر ایک کا اپنا نظریہ ہوتا ہے کسی کی سوچ پر پہرا نہیں بٹھایا جا سکتا۔

کوئی اپنے طور پر جو سوچتا ہے وہ اس کیلئے تو بہتر ہو سکتا ہے مگر دوسرا اس کی مخالفت بھی اپنے ہی نکتہ نظر سے کرتا ہے اور یہ سب کا جمہوری حق ہے اس حق کو نہ تو چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پہ پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں،سیاست میں الزامات کی روایت کا خاتمہ ہونا چاہیے آنے والے کو ویلکم اور جانے والے کو خداحافظ کی روایات باشعور ہونے کی دلیل ہے،راجہ خالد نواز نے پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ ایک عمر گزاری تھی مگر انہوں نے اپنی راہیں جب جدا کیں تو پیپلز پارٹی والوں نے راجہ خالد نواز کی کمی کو ہمیشہ محسوس کرنے کا افسوس کیا تھا مگر تحریک انصاف حالیہ چند برسوں میں سامنے آنے والی ایک مذہبی جماعت کے قدموں پر قدم رکھتی جا رہی ہے جسکا کہنا ہے کہ جو اس مذہبی جماعت کا حصہ ہے تو وہ مسلمان ہے اور جو اس جماعت میں نہیں تو وہ مسلمان بھی نہیں ،تحریک انصاف میں شامل سبھی پاکباز اور دوراندیش ہیں اور اگر کوئی راہیں جدا کر لے تو وہ ایجنٹ اور منافق تک کے القاب و الزامات کی بوچھاڑ میں ہوتا ہے، سیاست میں برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور اپنی صفوں مین دوسروں کیلئے گنجائش چھوڑ کر فراخدلی کا مظاہرہ کیا جانا ضروری ہے۔

Rashid Ali Rashid Awan

Rashid Ali Rashid Awan

تحریر : راشد علی راشد اعوان