کراچی (جیوڈیسک) چین سے حاصل شدہ قرضوں کے ذریعے درآمدی کوئلے سے چلنے والے مہنگے بجلی گھر لگانے والی وفاقی حکومت تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو مسلسل نظر انداز کررہی ہے۔تھر میں کوئلے کے قیمتی ذخائر سے کامیابی کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے باوجود اہم ترین منصوبہ وزیر اعظم سمیت متعلقہ وزرا کی توجہ حاصل نہ کرسکا۔ تھرکول انڈرگرائونڈ گیسیفکیشن اور بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو پہلے روز سے ہی بیورو کریٹک ہتھکنڈوں اور آئل لابی کی مخالف کا سامنا ہے۔
منصوبے کے لیے9 ارب روپے کے فنڈز2013 تک جاری کیے جانے تھے تاہم وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی، سستے اور مقامی وسائل سے بجلی کی ماحول دوست طریقے سے پیداوار کے بجائے اربوں روپے کے قرض لے کر درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو ترجیح دیے جانے کی وجہ سے اب تک صرف 30 فیصد فنڈز ہی جاری کیے گئے ہیں۔ منصوبے کے لیے وفاقی وزارت پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز اور سندھ حکومت کے تعاون اور سرپرستی سے بمشکل جاری رکھا جارہا ہے تاہم وزیر اعظم نواز شریف سمیت متعلقہ وزارتیں اس اہم ترین منصوبے کو مکمل طور پر نظر انداز کررہی ہیں۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمرمبارک مند کی قیادت میں باصلاحیت پاکستانی انجینئرز اور ماہرین کی کاوشوں سے تھر بلاک فائیو میں کوئلے سے حاصل شدہ زیر زمین گیس سے بجلی کی کامیابی کے ساتھ پیداوار28مئی 2015سے جاری ہے اور گیارہ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف سمیت وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وفاقی وزیر پو قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اور وزیر مملکت عابد شیر علی میں کسی بھی شخصیت نے پاکستان کی قسمت بدلنے والے اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لی۔
منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے نہ صرف منظور شدہ فنڈز جاری نہیں کیے جارہے بلکہ سندھ میں سیاسی سرگرمیوں کے باوجود کسی اعلیٰ حکومتی شخصیت نے بھی اس منصوبے کا دورہ نہیں کیا۔ حکمراں جماعت اقتدار میں آنے سے قبل ہی توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے بجلی کے منصوبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرتی رہی حکمراں جماعت کی جانب سے چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کو پاکستان کے لیے گیم چینجر قرار دیا جارہا ہے لیکن مقامی کوئلے سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی۔ تھر کے کوئلے سے حاصل شدہ گیس سے بجلی کی پیداوار کا منصوبہ 50/50میگا واٹ کے دو پاور پلانٹس پر مشتمل ہے، پروجیکٹ کی مجموعی لاگت کا تخمینہ 8.89ارب روپے ہے۔
یہ رقم 2013تک ادا کی جانی تھی تاہم اب تک منصوبے کی کل لاگت کا صرف 30فیصد ہی ادا کیا گیا ہے جس سے پروجیکٹ کو جاری رکھنے اور پیداوار مطلوبہ سطح تک بڑھانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ رقوم کی تاخیر سے ادائیگی کی وجہ سے لاگت بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس منصوبے کو پہلے روز سے ہی بیوروکریسی کی سرخ فیتہ گیری اور تیل درآمد کرنے والی لابی کی مخالفت کا سامنا ہے۔ پروجیکٹ کے لیے 90کروڑ روپے کے فنڈز کی پہلی ادائیگی بھی فنڈز کی منظوری کے بعد 21ماہ کی تاخیر سے کی گئی جس کے بعد 75کروڑ روپے کی دوسری ادائیگی ستمبر 2013اور 25کروڑ روپے کی، تیسری ادائیگی مئی 2014میں کی گئی۔ ان رقوم سے پروجیکٹ کے لیے ورٹیکل ڈرلنگ رگز، کورنگ رگز، ڈائریکشنل ڈرلنگ مشین، کیمکل پیوریفکیشن پلانٹ اور محدود تعداد میں کول گیس انجن خریدے گئے ہیں۔