تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر اولاد دنیا میں سب سے انمول خزانہ ہے بالخصوص ایک ماں کے لئے ۔بچہ صرف ایک رات بھوکا سوجائے تو ماں کا دل بے چین رہتا ہے اسے نہ تو نیند آتی ہے اور نہ وہ سکون پاتی ہے حالانکہ بچہ اس کے پہلو میں سویا ہوا ہوتا ہے مگر کمال شفیق ہستی ہے ماں کی کہ وہ اسے نیند سے جگاتی نہیں اور خود سو نہیں پاتی پھر کیا بیت رہی ہو گی ان مائوں کے دلوں پر جن سے ان کے بچے جدا کر دئے گئے ہیں۔
وہ ماں جو پہلو میں سوئے ہوئے بچے کی بھوک سے بیتاب ہو جائے جب نظر کے سامنے اپنے لال کو نا پائے تو کیا بیتتی ہو گی اس پر ؟کہتے ہیں کہ کوئی مر جائے تو صبر آجاتا ہے مگر کوئی گم جائے تو کسی صورت نا قرار آتا ہے اور نا صبر ہوتا ہے کیونکہ نا تو دل اسے مردہ تسلیم کرتا ہے اور نا وہ زندہ آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مقام حیرت ہے کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران صرف لاہور سے 314 بچے اغواء ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کو کوئی فکر دامن گیر نہیں ہو پائی اور نا ہی ان مغوی بچوں کی بازیابی کے لئے کوئی پیش رفت دیکھنے کو ملی۔
Mother
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ پنجاب بھر سے 652 بچے ماوئوں سے جدا کر دیئے گئے مگر پولیس حکام کی ناکامی ایسی کہ کیا کہنے ۔اس تکلیف یا کرب کی اذیت تو کوئی ان سے پوچھے کہ جن کے لخت جگر ان کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔بھلا پولیس حکام کیا جانیں کہ اولاد کی جدائی کیا ہوتی ہے ان کے ساتھ ایسا ہو تو انکو اس غم کی شدت کا اندازہ ہے ؟جس تن لاگے وہ ہی جانیں اور نا جانے کوئی ۔اس سلسلے میں آئی گی پنجاب مشتاق سکھیرا کیا بیان بڑا عجیب سا لگا موصوف فرما رہے تھے کہ بائیس فیصد بچے راستہ بھٹک جانے کی وجہ سے گھر نہیں پہنچ پاتے اور آٹھ فیصد بچے والین کے جھگڑوں سے تنگ آکر گھروں کو چھوڑ جاتے ہیں۔
واہ واہ صاحب کیا کہنے آپکی لاجک کے ؟دیکھیں جناب راستہ بھٹک کر جانے والے بچے زیادہ سے زہادہ ایک محلے سے دوسرے محلے تک چلے جاتے ہوں گے مساجد میں اعلانات اور والدین کی تلاش کے بعد انہیں مل جانا چاہئے نا ؟اب وہ بچہ جو راستہ بھٹک گیا ہو اکیلا شہر سے باہر ٹریول تو نہیں کر سکتا جب تک وہ کسی کے ہتھے نہ چڑھے ؟سوال تو ہے کہ اغواء کاروں کی بیخ کنی کا معاشرے سے بردہ فروشوں کے خاتمے کا اور آپ لے آئے نئی بات کہ راستہ بھٹک جاتے ہیں والدین کی وجہ سے گھر چھوڑ جاتے ہیں اگر ایک لمحے کو یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہوتا ہے تو باقی کے ستر فیصد کن بنیادوں پر والدین کی نظر سے دور ہوتے ہیں یہاں بھی کوئی منطق گھڑ لیں تاکہ آپ پہ کسی ذمہ داری کا اطلاق نا ہو سکے ۔شتر مرغ کی طرح ریت میں سر گھسیڑ لینے سے فرائض کی ادائیگی ممکن نہیں سرکار کچھ عملی طور پر بھی کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔
kidnaping
بات یہ ہے کہ پنجاب سے جو ساڑھے چھ سو سے زائد بچے اغاء ہوئے ان میں سے کوئی اویس شاہ نہیں ہے اور نا ہی ان میں سے کوئی کسی چیف جسٹس کا فرزند ارجمند ہے یہ تو بیچارے عام شہریوں کی اولادیں ہیں ان کے لئے پولیس یا حکومت وقت مضطر کیوں ہو ؟غرباء کے بچوں کے لئے حکومت درد سر کیوں لے عام عوام کی اولاد کے لئے وزارت داخلہ پنجاب فکر مند کیوں ہو ؟خدا نا کرے کسی کا لخت جگر ،نور نظر ،اس سے جدا ہو اولاد کادکھ کتنی اذیت دیتا ہے ذرا سورئہ یوسف کو بغور پڑھ کے دیکھو جب یعقوب علیہ السلام سے جناب یوسف علیہ السلام کو جدا کیا گیا تو ان پہ کیا بیتی آنکھوں کا نور نہیں رہا تھا انکا حالانکہ ایک پیغمبر کا حوصلہ اور صبر عام انسان سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے اس کے باوجود بینائی کھو بیٹھے تھے وہ پھر عام آدمی پہ کیا گزر رہی ہو گی اندازہ تو کریں۔
حیرت کی بات ہے کہ چھ ماہ کے دوران صرف دو مغوی برآمد ہو سکے ان کی برآمدگی میں بھی نا پولیس کا کوئی کردار ہے اور نا حکومتی مشینری کا تاوان کی ادائیگی کے بعد واپس والدین کو ملے ہیں ۔پولیس اور حکومت تو ایک بھی بچہ بازیاب نہیں کروا سکی ۔وہ تو لائق صد تحسین ہیں عبدالغفور وٹو صاحب اور رائل چینل کی پوری ٹیم جنہوں نے اس ایشو کو اٹھایا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس نے فوری سو مو ٹو ایکشن لے لیا اور 28 جولائی کو آئی جی پنجاب کو طلب کر لیا ہے نہائت احسن اقدام ہے یہ سپریم کورٹ کا خدا کرے کہ سپریم کورٹ ہی والدین کو انکے بچے بازیاب کروا کے دے سکے کیا ہی اچھا ہوتا اگر آئی جی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے وزیر داخلہ کی بھی طلبی عمل میں آتی کیونکہ ہمارے تمام سیاست دان آج کل اتنا عوام کے لئے پریشان نہیں ہیں جتنا انہیں اقتدار کی فکر ہے کسی کو اقتدار بچانے کی اور کسی کو اقتدار پانے کی وہ کیوں سوچیں ماوئوں سے لال ملانے کی اگر یہ سارے اپنے اپنے مقاصد کی جنگ لڑتے رہیں گے تو متلاشی ماوئوں کو تشفی کیسے ہو گی ؟