تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر آج پھر ایک دھماکے نے میری پاک دھرتی کو دہلا کر رکھ دیا یہ خبر سن کر کافی دیر تک تو جیسے میری سوچنے سمجھنے کی تمام حسیات جیسے ساکت و جامد ہو گئیں میرے گھر، میرے وطن، میری دھرتی کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا درگاہ شاہ نورانی پر ایک قیامت ٹوٹی انسانی اعضاء سینہء مادر پر گلاب کی معصوم پتیوں کی طرح بکھرے پڑے تھے اور یہ قیامت بھی ایسے علاقے پر نازل ہوئی جہاں کوئی اسپتال تک قرب و جوار میں بھی واقع نہیں ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق نوے سے زائد لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہیں ان زخمیوں میں سے بھی بہت سارے تو کراچی پہنچنے سے پہلے ہی روح سے جسم کا بندھن توڑ بیٹھیں گے حادثے کی اطلاع دینے والے کو بھی کم و بیش بیس کلو میٹر کی مسافت طے کر کے اطلاع کرنی پڑی کیونکہ موبائل سگنل وہاں دستیاب نہیں تھے بجلی تک کی تو سہولت وہاں ناپید ہے کس طرح وہ درندہ یتنے ہجوم میں گھسا اور کس دیدہ دلیری سے اس نے خود کو اڑانے کے ساتھ ساتھ انسانیت کو ٹکڑوں میں بانٹا ؟ابھی تو کوئٹہ والے سانحے کے زخم بھرنے نہیں پائے تھے کہ اک تازہ گھائو میری مادر وطن کو سہنا پر گیا ۔ جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارتی بھیڑیئے اس علاقے میں سرگرداں ہیں تو پھر سیکیورٹی کے معاملے میں ہمیں اتنا ریلکس ہو کر بیٹھنے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کسی حد تک بھی گر سکتا ہے ہم اسے کھلی چھٹی کیونکر دیئے ہوئے ہیں۔
آخر کس بات کا انتظار ہے ہمیں ؟جب ہر بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ بھارتی را کے پالتو بھیڑیئے میری دھرتی کے معصوم انسانوں کا شکار کرنے کے لیئے خطہ بلوچستان پر دندناتے پھر رہے ہیں تو ان کو پٹہ آخر کس خوف کے سبب نہیں ڈالا گیا؟جب ان بھیڑیوں کو چرانے والا خبیث کلبھوشن پکڑا جاچکا تھا تو اس کے ساتھی کیوں ابھی تک میری دھرتی پر زندہ گھوم رہے ہیں کلبھوشن یادیو کو فوری طور پر لٹکانے میں آخر کونسا امر مانع ہے ؟بھارتی ارادے جب ظاہر ہوچکے ہیں کہ وہ بلوچستان کو اس پاک سر زمین سے الگ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے تو اس کی آنکھیں ابھی تک سلامت کیوں ہیں ؟اب وقت آگیا ہے کہ جو بھی را کا ایجنٹ ظاہر ہو جائے اسے بلا تاخیر اڑا دینا چاہیئے۔
ابھی کل کی بات ہے کہ بھارتی کونسل خانے کے ملازمین کو ملک بدر کیا گیا وہ ملازمین میری دھرتی پر رہ کر تخریبی کارروائیاں کروانے کا سبب بن رہے تھے انکو بھی ملک بدر کرنے کی بجائے سزا دینا زیادہ سود مند تھا پھر ہم ایسا کیوں کر نہیں پائے ؟دیکھ لیجیے گا ابھی تھوڑی دیر تک یا پھر صبح تک ایسی خبر بھی آسکتی ہے کہ فلاں کالعدم تحریک نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔تو جہاں سے یا جس بھی ذریعے سے وہ اپنے کئے کا اعتراف کریں اس جگہ تک پہنچنا اس جدید دور میں کچھ مشکل نہیں پھر ہم آخر تاخیری حربے کیوں آزماتے ہیں کیوں انسانیت کے قاتلوں کو سزا دینے سے ہچکچاتے ہیں۔
اگر کسی نام نہاد کاعدم تحریک کا یہ کام ہے تو اسے بھی صفحہ ہستی سے مٹانا واجب ہو چکا ہے جو تحریکیں اسلام جیسے آفاقی سلامتی کے دین کو آڑ بنا کر انسانی خون پانی کی طرح بہا رہی ہیں ان کا اسلام سے تو کیا انسانیت سے بھی دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ ابھی چند لمحے پہلے کی بات ہے کہ ہماری ایک کہنہ مشق کالم نویس اور شاعرہ محترمہ رقیہ غزل نے اسی واقعے کے حولے سے اپنا ایک شعر پوسٹ کیا ہے جو میں نظر قارئین کرتا ہوں ۔
کوئی قانون درندوں کا بھی ہوتا ہو گا کون ہو تم جو نہتوں کو جلا دیتے ہو
اور واقعی یہ بات حقیقت ہے کہ درندوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو انسانی شکل میں ناجانے کونسی مخلوق ہیں جو بے ضرر لوگوں کو بے جرم مارتے چلے جارہے ہیںاور ان کے پاس کونسی ایسی طلسمی ٹوپی ہے کہ اتنے سارے لوگوں کا خون کر کے بڑی آسانی سے سب کی نظروں سے غائب ہو کر کسی اگلی تباہی کی منصوبہ بندی کرنے لگ جاتے ہیں اور ہم بڑے سکون سے اتنا کہہ دینے پر اکتفا کر لیتے ہیں کہ نامعلوم افراد تھے یا پھر ایک ہی خودکش بمبار تھا جس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور پھر پرسکون ہو جاتے ہیں اس بمبار کو یہاں تک آسانی کے ساتھ پہنچانے والے سہولت کاروں تک آخر ہم کب پہنچیں گے ْ میں پہلے بھی بارہا یہ اپیل کر چکا ہوں ساری قوم سے اور قوم کے رکھوالوں سے کہ اب دیر کی تو بڑی تباہی ہو سکتی ہے اس سے پہلے کہ مادر وطن کو کسی بڑے سانحے سے دوچار ہونا پڑے ہر دہشتگر د ،ہر انڈین ایجنٹ ،ہر ملک دشمن اور ان کے سہولت کاروں کو لٹکا دو اور دھرتی کو بچا لو یقین جانوں دھرتی کے امن کے لیئے اب تمام وطن پرست ایک ہو جائو اور وطن دشمنوں کی صفیں الٹا دو میرے وطن سے مودی ازم اور موذی ازم کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔
TTP
بلا تفریق تحریک و تنظیم ،بلا خوف اقتدارو اختیار ،جو ہندوستانی یاری کا دم بھرے وطن دشمن ہے مٹا دو اسکو خواہ وہ کوئی بھی ہو اب اگر کوئی رعائت برتی گئی تو تاریخ ہم سے رعائت نہیں کرے گی اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر جو بھی شخص دشمن کو اپنا جانے اور دشمن کے سامنے زبان بند رکھے باوجود اس کے کہ وہ وہ ہمیں نت نئے زخم دیتا رہے لٹکا دو ایسے ہر موذی کو میری دھرتی جس جس کی وجہ سے بھی اپنے فرزندوں کو اپنے اندر سمو رہی ہے۔دھرتی ماں کی گود اجاڑنے والا ہر دشمن اور اس کا سہولت کار ماں دھرتی کا دشمن ہے اور ماں دھرتی کے ہر فرزند ناصرف افواج پاک بلکہ ہر اس وطن کے بیٹے کا یہ فریضہ ہے کہ مادر وطن کے دشمن کو شناخت کر لے اور پھر اس دشمن کا خاتمہ اپنا فرض سمجھ کر ماں دھرتی کا قرض چکائے جو ایسا نہپیں کرتا وہ ماں دھرتی کا کچھ نہیں لگتا ۔یاد رکھیئے بزدل دشمن ہمیشہ چھپ کے وار کرتا ہے سامنے آکر للکار کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا اور اس کو کامیابی تب ملتی ہے۔
خون کی ہولی کھیلنے میں جب اسے اندر سے کچھ قومی غیرت سے عاری غدار دستیاب ہو جاتے ہیں تب ہی تو دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے ۔ ایک سادہ سی مثال پیش کرتا چلوں کہ اگر ایک گائوں کے لوگوں میں اتفاق و اتحاد قائم ہو تو وہاں اجنبی فوری طور پرپہچانا جائے گاکیونکہ ہر ایک باسی تو ایک دوسرے سے واقف ہوتا ہے ایسے علاقوں میں قتل تو کیا چوری بھی نہیں ہوتی مگر جب واردات کرنے والوں کو اسی گائوں سے کوئی رسہ گیر میسر ہو جائے تو وہ آسانی کے ساتھ واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں کسی اجنبی کو وہاں دیکھ بھی لیا جائے تو وہ رسہ گیر اسے اپنا مہمان یا عزیز بتا کر لوگوں کو مطمئین کر دیتا ہے اور لوگ بھی اسے چوہدری کا مہمان سمجھ کر کوئی الزام دے نہیں پاتے وہ بڑی آسانی سے واردات کر کے مال ٹھکانے لگا کر دوبارہ اسی علاقے میں آجاتا ہے لہذا اب ہمیں بھی ایک قوم بن کر را کے اور دہشتگر تنطیمون کے ان رسہ گیر اور سہولت کار روں کو گردن سے دبوچنا ہو گا جس کے گھجر سے ، جس کے ڈیرے سے ، جس کے سکواڈ سے ، جس کے ملازمین میں سے کوئی را کا ایجنٹ یا کسی کالعدم دہشتگر تنظیم کا کوئی شخص مل جائے تو بلا تاخیر پہلے اس سہولت کار یا رسہ گیر کی گردن اڑائی جائے خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کے بعد مجرم کو سزا دی جائے ورنہ مجرم اول تو پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر بالفرض محال پکڑے بھی گئے تو وہ رسہ گیر صاحب قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے پھر سے آزاد کروا لے گا ہر ایک دشمن کو پہچاننا ہو گا خواہ وہ اندر سے ہو یا باہر سے۔
چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں ہر ایک دشمن کی سازشوں سے یہ دیس ہم کو بچانا ہوگا محبتوں کو فروغ دے کر شعور ملت جگانا ہو گا وہ کون ہیں جو ہمیں میں رہ کر ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں
مذہبی ، لسانی اور گروہی اختلافات کو پس پشت رکھ کر قومی اور ملی سوچ کو فروغ دے کر ایک قومی دھارے پر چلنا پڑے گا ہمیں اگر دشمن کو زیر کرنا ہے ۔ اور ان غداروں کو بھی اپنی صفوں سے نکال باہر کرنا ہے جو دھرتی ماں کا کھا کر اسی کی رگوں میں دہشتگردی کا تیزاب انڈیل رہا ہے۔ اب تو معافی کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر لاشیں گرتی رہیں گی دھماکے ہوتے رہیں گے دھرتی ماں کا وجود لہو میں تر ہوتا رہے گا آئو مادر وطن کے دشمن کا خاتمہ کرنے کا عہد کریں وہ چاہے مکانوں میں ہو یا ایوانوں میں اسے ڈھونڈ ھ نکالیں اور مادر وطن کی لاج بچالیں۔
Dr M H Babar
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com