یہ سب کیوں اور کیسے ہوا

Sehwan Sharif Blast

Sehwan Sharif Blast

تحریر : علی رضا
جمعرات کو ہونے والے دھماکے میں 88 افراد شہید جبکہ 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان زخمیوں میں سے 50 کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔گزشتہ 5 دنوں میں یہ آٹھواں دھماکہ ہے۔ سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں بہت بڑا جانی نقصان ہوا۔یہ دھماکہ دہشت گردوں کی بزدلی کا ثبوت ہے۔چند دنوں میں دھماکوں کی لہر پورے پاکستان میں پھیل گئی ہے۔لاہور،کوئٹہ ،پشاور اور مہمند ایجنسی کے بعد اب دہشت گردوں نے لعل شہباز قلندر کے دربار کو نشانہ بنایا۔بتایا جارہا ہے کہ چاروں صوبوں میں دہشت گردی کی پلاننگ تین مہینوں سے پہلے ہی کی گئی تھی۔لیکن طے پایا تھا کہ فروری میں نشانہ بنایا جائے گا۔

اس سے پہلے لاہور میں دہشت گردوں نے ہڑتالی کیمپ کے دوران دھماکہ کیا۔جس میں بہت قیمتی جانی نقصان ہوا۔ پولیس افسران سمیت 13افراد شہید جبکہ 70افراد زخمی ہوئے۔چیئرنگ کراس پر ہونے والے دھماکے میں ملوث خود کش بمبار کا اہم سہولت کار پکڑلیا گیا ہے۔یہ نیٹ ورک افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کرتا ہے اور جب کہ لاہور بم دھماکے میں بھی یہی نیٹ ورک ملوث ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اس حملے کی تیاری افغانستان میں کی گئی تھی۔سہولت کار کے بیان کے مطابق انہیں پولیس کو نشانہ بنانے کو کہا گیا تھا اور یہ کام عصر سے پہلے ختم کرنے کو کہا گیا تھا۔13فروری کو پولیس والے موجود تھے جس سے کے بعد خود کش بمبار کے سہولت کار انوارالحق نے اسے وہاں چھوڑ دیا۔اس کی تیاری پہلے ہی کی جا چکی تھی۔خودکش بمبار کے سہولت کار نے اپنے اعترافی بیان پر مبنی ویڈیو میں کہا ہے کہ ان کا تعلق کالعدم جماعت الاحرار سے ہے۔انوار الحق کا کہنا تھا کہ بیس پچیس دن پہلے اسے خود کش جیکٹ دی گئی تھی، جو پشاور سے لاہور ایک ٹرک کے ذریعے پہنچائی گئی۔دہشت گرد آسانی سے بزدلانہ وار کرنے میں کیسے کامیاب ہوگئے؟اس کی بھی وجوہات ہیں۔

ایک طرف تو سکیورٹی فورسز پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ لاہور میں حساس اداروں کی وارننگ کے باوجو د سکیورٹی کیوں نہیں فراہم کی گئی۔ یہ بڑاسوالیہ نشان ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکیورٹی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے دہشت گرد آسانی سے لوگوں کا خون بہانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔آج اگر حکومت لعل شہباز قلندر درگاہ کو سکیورٹی فراہم کرتی تو شاید اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔آپ دیکھیں کہ ملک کے اعلی حکام کو جتنی سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، جتنی سکیورٹی وزیروں کو فراہم کی جاتی ہے ،اتنی سکیورٹی عوام کو کیوں نہیں فراہم کی جاتی۔۔۔لعل شہباز قلندر میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موجود تھے ،لیکن سکیورٹی کے لیے تین ،چار پولیس سپاہی موجود تھے۔مجھے بتائیں کہ اب یہ تین چار لوگ کیا کرتے یہ سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر کوئی وزیراعظم ہوتا تو سکیورٹی اہلکار کی تعداد تو دور کی بات آپ گاڑیاںہی گنتے رہ جاتے اور پولیس اہلکار کی تعداد سینکڑوں ہوتی۔قیمتی جانوں کی مذمت تو عام آدمی بھی کرتا ہے ۔مذمت کے ساتھ ساتھ آپ سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں تو عوام کے لیے فائدہ ہے۔

Police

Police

قیمتی جانوں کے ضیاع کا دوسرا بڑا سبب زخمیوں کو بروقت طبی سہولیات نہ ملنا ہے۔میں دیکھ رہا تھا کہ جب لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکہ ہوا تو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پیاروں کو ہسپتال پہنچایا۔ہسپتال بھی درگاہ سے کئی کلومیٹرز کے فاصلے پر تھے۔ایمبولینسز بھی تاخیرسے پہنچے۔اب آپ پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال دیکھیں تو آپ کو انتہائی افسوس ہوگا۔قیمتی جانوں کے ضیاع کی اور وجہ انہیں بروقت طبی سہولیات نہ ملنا ہے۔مزار کے قریب قریب کوئی ہسپتال نہیں تھا جس کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوگیا۔زخمیوں نے قریب کوئی ہسپتال نہ ملنے کی وجہ سے پہلے ہی جانیں گنوا دیں۔حکومت کو اپنی فکر چھوڑ کر عوام کی فکر بھی کرنی چاہیے۔

ان سفاک دہشت گردوں میں جہاں قوم کو قیمتی جانوں کے ضیاع کا نقصان اٹھانا پڑا تو وہیںدھماکوں کا مقصد پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں نہ کروانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔غیر ملکی پہلے ہی پاکستان میں نہ کھیلنے کا جواب دے چکے ہیں۔لیکن پاکستانی پر عظم ہیں کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی کروایا جائے تاکہ ہمارے ویران میدان آباد ہو سکیں۔اگر پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہوگی اگر فائنل پاکستان میں نہیں ہوتا تو یہ پاکستان کی ناکامی ہوگی۔اور دوسرے ممالک خاص طور پر بھارت پر اچھا تاثر نہیں جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کے میدان ہمیشہ ویران ہی رہیں۔اور وہ کسی صورت پاکستان کو ترقی کے راستے پر نہیں دیکھ سکتے۔ان دھماکوں کی وجہ سے پاکستان کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ملک پر نظر دہرائیں تو آپ دیکھیں گے کہ نہ ہمارے پارک محفوظ ہیں نہ ہماری مسجدیں محفوظ ہیں نہ ہمارے دربار محفوظ ہیں۔جس جگہ لوگوں کی تھوڑی سی تعداد زیادہ اکٹھی ہو جائے وہاں دھماکہ ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

دھماکہ ہوتا ہے تو ہمارے اعلی حکام صرف مذمت کرتے ہیں۔چند بیانات جاری ہوتے ہیں پھر چپ ہوجاتے ہیں۔لیکن سوال ہے کہ کیا ہم مذمت ہی کرتے رہیں گے؟اگر حکومت سکیورٹی فراہم کرتی تو شاید قیمتی جانوں کے ضیاع کا نقصان نہ اٹھانا پڑتا،اتنے لوگ جانیں نہ گنواتے۔طبی سہولیات نہیں ہے۔سکیورٹی نہیں ہے۔ہسپتال نہیں ہے۔اگر ہسپتال موجود ہیں تو ان میں سہولیات موجود نہیں ہے۔سارا بوجھ غریب عوام پر کیوں آتا ہے۔غریب عوام آخر جائے تو کہاں جائے۔نقصان ہمیشہ غریب عوام کو ہی اٹھانا پڑتاہے۔جب کہ ہمارے وزراء کا کام ٹی وہ پر آنا پریس کانفرنس کرنا اور چلے جانا۔اگر سچے دل سے ان تمام دھماکوں کی صاف شفاف تحقیقات کی جائیں تو مزید پیش رف سامنے آ سکتی ہے۔سہولت کار سے اس دھماکے کے متعلق اہم معلومات مل گئی ہے۔آزاد اور شفاف تحقیقات کرکے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اس حملے کے بعد پاکستانی فوج سمیت رینجرز اور پولیس حرکت میں آ گئی ہے اور چوبیس گھنٹے میں سو سے زائددہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیے۔اس طرح دہشت گردی کے خلاف مزید کارروائیاں جاری ہیں۔

Ali Raza

Ali Raza

تحریر : علی رضا