تحریر: ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 14 نومبر 2015 کو یہ خبر تمام دنیا کے چینلز پر چلتی رہی کہ فرانس کے خوشبووں کے شہر پیرس میں دھماکوں اور فائرنگ سے 160 ،افراد کو ہلاک کر دیا گیا اور 300 سو افراد اس کے نتیجے میں زخمی ہوگئے ہیں جن میں 100 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔دہشت گردوں نے فرانس کے 6 مختلف مقامات پر حملے کئے، ایک کنسرٹ ہال میں 100 ،سے زائد افراد کو یرغمال بنانے کے بعد لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ فٹ بال اسٹیڈیم، پیزا سینٹر، جاپانی ہوٹل، اور کمبوڈیا کا ریسٹورنٹ شامل ہیں۔ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ان خود کش دھماکون میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ حملے کی شام یورپ کے پر ہجوم اور مصروف ترین ثقافتی مرکز پیرس میں لوگ ویک اینڈ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
ان حملوں کو جہادیوں کی جانب سے کیئے جانے والے اب تک کے حملوں میںبہت ہی آگے کی چیز قرار دیا گیا ہے ۔کہ داعش نے مغرب کی تاریخ کا زبردست اور خونریز حملہ قرار دیا ہے۔جن میںکم ازکم 8حملہ آوروں نے حصہ لیا۔ جو 9/11 کے بعد مغرب کے خلاف انتہائی پیچیدہ اور انتہائی کامیاب حملے ہیں۔فائننشل ٹائمز کا سام جونز لکھتا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے تھے کہ یہ واقعہ ہونے والا ہے۔گذشتہ مہینوں میں دو اعلیٰ عہدیداروں نے فائننشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ انہوں نے داعش کی سرحدوں سے بہت باہر اس کے عزائم اور مقاصد کا جو اندازہ لگایا تھا اس میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔داعش القاعدہ کی طرح بہت بڑا حملہ کرنا چاہتی تھی۔مگر یہ بات غیر واضح تھی کہ وہ اس نوع کا حملہ کرنے کی سکت رکھتی بھی ہے؟
یہ بات شائد ساری دنیا کے ذہن کے کسی گوشے میں ہو کہ داعش کے بنانے میں امریکہ، برطانیہ اور سب سے زیادہ اہم کردار اسرائیل کا ہے۔برطانیہ کے ٹونی بلیئر تو اس کا عتراف بھی کر چکے ہیں۔دوسری اہم بات ان حملوں کے سلسلے میں یہ ہے کہ دنیاکو چند ماہ پہلے کی وہ بات یاد کرنے کی ضرورت ہے جب فرانس نے اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطین کا پرچم لہرانے اور فلسطین کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی تو اسرائیل نے اس کا برا مناتے ہوے فرانس کو متنبہ کیا تھا کہ فرانس کو اس کا خمیازہ بھُگتنا پڑے گا اور چند ماہ بعد ہی فرانس میں دہشت گردی کا یہ بڑا واقعہ رونما ہو گیا۔اس کے باوجود عیسائی دنیا کے لوگ ان حملوں کو مسلمانوں سے منسوب کر رہے ہیں اور مسلمان انتہا پسندی کا نام دے رہی ہے۔
Bashar al-Assad
ان حملوں کے بارے میں شا م کے صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ فرانس خود پیرس حملوں کا ذمہ دار ہے۔دوسری جانب عراق کے وزیرِ خارجہ ابراہیم الجعفر کا کہنا ہے کہ فرانس امریکہ اور ایران کو ان حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔کہ شدت پسند ان ممالک پر حملہ کر سکتے ہیں۔ عراقی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیرس حملے سے قبل عراقی اِنٹیلی جنس ایجنسیوں کو اطلاع ملی تھی کہ شدت پسند فرانس، امریکہ اور ایران کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ہم نے ان معلومات کا تبادلہ متعلقہ ممالک سے کر دیا تھا۔مگر پھر بھی امریکہ اس بات کا انکاری ہے کہ اُسے ان حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔
پیرس حملوں کی اگلی صبح فرانس کے صدر فرانکو اولاند نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ حملے پوری تیاری کے ساتھ کئے گئے ۔جن میں اندرونی مدد بھی شامل تھی۔جبکہ اس کی منصوبہ بندی بیرونِ ملک کی گئی تھی۔فرانس میں مزید حملوں کا انتباہ جاری کرتے ہوے کہا گیا ہے کہ سانحہ پیرس حملوں کے ماسٹر مائنڈ کی شام میں موجودگی کی اطلاع ہے۔سی آئی اے کا کہنا ہے کہ داعش کسی بھی وقت پیرس جیسے حملے کر سکتی ہے۔صدرِفرانس کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں کا فیصلہ شام میں ہوااور منصوبہ بندی بیلجیئم میں کی گئی۔یہ حملے فرانسیسیوں کی مدد سے کئے گئے۔فرانس کے وزیر اعظم مینول والز کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ علم ہے کہ صرف فرانس ہی نہیں بلکہ دیگر یورپی ملکوں میں بھی مزید کاروائیاں کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
فرانس کی حکومت اور عوام کی بڑی تعداد مسلمانوں سے مسلسل نفرت کا اظہار کرتی چلی آرہی ہے۔وہ چاہے چارلی ہیبڈو جیسے ننگ دھڑنگ رسالے ہوں یا اقتدار میں بیٹھے لوگ ہوں ۔وہ کبھی پیغمبرِآخر الزماں ۖ کی شان میں گُستاخیاں کرتا ہے تو کبھی حکومتِ فرانس محمد ۖ کی چاہنے والی بچیوں اور خواتین پر حجاب کی پابندیاں لگاتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ان لوگوں کو تو انسانی حقوق کا بھی پاس نہیں ہے ۔بنے پھرتے ہیں انسانیت کے ٹھیکیدار!!جب کوئی بھڑ کے چھتے میں ہاتھ مارے گا تو کیا زخمی نہ ہوگا؟کیونکہ جذباتی افراد ہر مذہب و معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔اور مسلمان تو اپنے پیغمبر ااور اس کے لائے ہوے پیغام پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔مگر مسلمان کو کسی بے گناہ کی جان لینے کا اختیار نہ تو اللہ نے ہی دیا ہے اور نہ اس کے رسول محمد ۖ نے دیا ہے۔اسلام انصاف اور سچائی کا مذہب ہے۔
Pakistan
پاکستان اور عالمی برادری نے پیرس حملوں کی کھل کر مذمت کی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پیرس حملے کے فوری بعداپنے بیان میں کہا ہے کہ سانحہ پیرس انتہائی افسوس ناک ہے۔دکھ کی اس گھڑی میں ہم فرانس کے ساتھ ہیں۔دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر دارادا کریں گے۔امریکہ کے صدر بارک اوباما نے اظہارِ مذمت کرتے ہوے کہا کہ دہشت گردوں کا ہر جگہ پیچھا کریں گے۔ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جنگ مشرقِ وسطیٰ تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے۔ اقوام متحدہ ، برطانیہ اور جرمنی نے بھی فرانس میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے۔غرض یہکہ ہر پر امن رہنے کا خوہشمند ملک ان حملوں کی مذمت کر رہا ہے۔
ان حملوں نے یورپ میں مقیم مسلمانوں کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا کردی ہیں۔ان مشکلات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سلوکیہ کے وزیر اعظم نے ملک میں موجود مسلمانوں کو خطرہ قرار دے کر ان کی سخت نگرانی کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔جہاں پر ہر مسلمان کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو متنبہ کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں دخل اندازی نہ کریں۔اسی طرح فرانس کے وزیرِ داخلہ نے مساجد کی بندش کا عندیہ دیا ہے۔
انہوں نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ نفرت پھیلانے والے علماء کو ملک بدر کر کے ان کی مساجد کو تالے لگا دیں گے۔اسی طرح ہنگری کے وزیر اعظم وکفور اربان کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تارکینِ وطن کے بحران کا فائدہ اٹھا کر یورپ میں داخل ہو رہے ہیں۔کینیڈا میں ایک مسجد کو عیسائی دہشت گردوں نے آگ لگا دی۔امریکی ریاست فلوریڈا میں مساجد پر دہشت گرد دوں کی جانب سے فون پر بم حملوں کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ پیرس حملوںسے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔وزارتِ خارجہ اور ایف آئی اے ایسی پالیسی وضع کریں جس سے تارکینِ وطن کی مدد کیجا سکے۔
ISIS
دنیا میں نیک دل لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے فرانس کے شہری کے سوشل میڈیا پر پیرس حملوں پراپنی بیوی کی ہلاکت کے بعد دیئے جانے والے اس پیغام نے ساری دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔اُس نے لکھا کہ” داعش تم مجھے نفرت پر مجبور نہیں کر سکتے…میرا داعش سے کہنا تھا کہ تم نے ایک غیر معمولی ہستی کی چوری کی ہے۔ میرے جیون کا پیار،میرے بیٹے کی ماں،لیکن تم میری نفرت سے پھر بھی محروم رہو گے۔… یہ بھی جان لو کہ میری زندگی کے زخم کو چھید نے والی ہر گولی اس کے جسم میں ایک زخم کی شکل اختیار کر چکی ہوگی۔ تم نے یہ ہی نفرت چاہی تھی نا!لیکن نفرت کا جواب دینے کا مطلب ہے کہ اس نا سمجھی کے آگے سپر ڈال دینا…دیکھو ہم صرف دو ہیں میرا بیٹا جو 17 ماہ کا ہے اور میں ،لیکن ہم ساری دنیا کی فوج سے زیادہ طاقتور ہیں۔تُم پر ضائع کرنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔یہ میرا بچہ ہر دن اپنی آزادی اور خوشی سے تمہاری تذلیل کرتا رہے گا۔
کیونکہ تم اس کی بھی نفرت سے محرومرہو گے!!!فرانس کے شہری کے یہ الفاظ دنیا کی قیمتی ترین شے سے تولنے کے قابل ہیںہمنے عیسائی دنیا کی مسلمانوں کے خلاف نفرت ہی نفرت دیکھی ہے۔مگر اب یہ احساس ہو چلا ہے کہ ہزاروں بھیڑیوں میں کو ئی قابلِ محبت انسان بھی موجود ہوتا ہے۔ایسے انسانوں کے لئے ہی کہا گیا ہے کہ ”مت سہیل ہمیں جانو ،پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے”آج بھی دینا میں انسان اور انسانیت مری نہیں ہے۔
مغرب کے لوگوں کی مسلمانوں سے نفرت کی آگ کو کم کرنے کیلئے ایک فرانسیسی مسلمان نو جوان نے انوکھا انداز فکر اپنایا جس نے اکثر فرانسیسیوں میں احساسِ ندامت بیدار کر دیا اس نوجون نے پیرس کے ایک مصروف چوک پراپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر گتے کے ایک ٹکڑے پر یہ عبارت تحریر کی کہ ” اگر مجھ پر اعتماد ہے تو مجھے گلے لگا لو، میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ میں ایک دہشت گرد ہوں ” سینکڑوں لوگوں کا ہجوم اس نوجوان کے گرد اکٹھا ہوگیا اور ہر مرد و عورت اس سے بغل گیر ہوتا رہا اور اکثر کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی ٹپکتے دیکھنے میں آئی۔جواس بات کی غماض ہے کہ مغرب کے مسلمانوں سے تعصب رکھنے والے معاشرے میں آج بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ مسلمانوں سے مسلسل نفرت کے اس دور میں تعصب کی آگ سے بھی محفوظ ہیں۔فرانسیسی نوجوان کا یہ جملہ ساری دنیا کی رہنمائی کرے گا کہ”داعش تم مجھے نفرت پر مجبور نہیں کر سکتے”
Dr. Shabir Ahmed Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir23khurshid@gmail.com