پاکستان کی نئی حکومت کے وزیر خارجہ افغانستان کے پہلے باقاعدہ دورہ پر 15ستمبر کو کابل پہنچیں گے۔شاہ محمود قریشی کے اس دورے کو پاکستانی وزرات خارجہ محاذ پر پہلا بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے۔تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغان ہم منصب کی دعوت پر کابل کا دورہ کررہے ہیں، وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاہ محمود قریشی کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ وزیر خارجہ دورہ کابل میں افغان صدر سے بھی ملاقات کریں گے۔14 ستمبر کو ترک وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ صدر اور وزیر اعظم سے علیحدہ علیحدہ ملاقات بھی کریں گے۔
مہمان وزیر ترک صدر رجب طیب اردگان کا پیغام بھی پہنچائیں گے۔اس سے قبل چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے پاکستان کا دورے میںشاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔5 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کا دورہ کرچکے ہیںجہاں انہوں نے اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی سے بھی ملاقات کی تھی ۔ 18اگست کے بعدنئی حکومت کے انصرام و انتظام کا سلسلہ جاری ہے۔ وزراتوں کی تقسیم ہنوز ہورہی ہے۔ جب کہ وزیر اعظم ایک بار قوم سے خطاب اور ایک بار قوم کو ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خطاب بھی کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی مسلسل قومی اداروں سے طویل ترین بریفنگ لینے میں مصروف ہیں۔خاص پر سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے عوام میں ایک مثبت رائے قائم ہورہی ہے کہ نومنتخب حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی اعلیٰ عدلیہ بھی ایک صفحے پر ہیں۔ اپوزیشن میں بھی فی الوقت اتنا دم خم نہیں ہے کہ ان کی حکومت کے لئے چیلنجز پیدا کرسکے اس لئے وزیر اعظم پاکستان کو ٹھوس ، طویل و قلیل المدتی فیصلے لینے میں کسی پریشانی کا سامنانہیں ہوگا۔آرمی چیف سے ملاقاتیں اور جی ایچ کیو میں بریفنگ کے بعد آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بھی8گھنٹوں پر محیط طویل بریفنگ انتہائی اہمیت کی حامل قرار دی جارہی ہے۔
گو کہ یہ کسی بھی نئی حکومت کو عسکری معاملات پر بریفنگ دینا ایک معمول کی کاروائی کا حصہ ہے۔ لیکن یہ اتفاق ہے کہ جی ایچ کیو میں وزیر اعظم اور کابینہ کو اُس وقت بریفنگ دی گئی جب امریکی وزیر خارجہ و دیگرعہدے داران کو پاکستان دورے پر آنا تھا ۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ آئی ایس آئی کی جانب سے بھی باقاعدہ بریفنگ کا اہتمام ایسے وقت ہوا جب پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ اپنے پہلے دورے پر افغانستان جا رہے ہیں۔ جہاں افغانستان کے صدر اشرف غنی کو وزیر اعظمکی جانب سے پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جائے گی ۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی بھی دیرینہ نہیں رہے ۔ تاہم عسکری قیادت نے افغانستان کے کئی عسکری و حساس اداروں کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں تھی جس کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل طے پایا تھا کہ پاک۔ افغان انتظامیہ ایک دوسرے پر دہشت گردی کے واقعات میں بنا ثبوت الزامات عائد نہیں کریں گی ۔ لیکن کابل انتظامیہ کی جانب سے وعدہ خلافی ہوئی اور افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کو بار بار پاکستان کے خلاف جوڑنے کی روش جاری رہی۔
نئی حکومت بننے سے قبل اشرف غنی نے عمران احمد خان نیازی کو مبارکباد کا پیغام دیا اور افغانستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔ جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر نئی خارجہ پالیسی کو نمایاں کرسکتا ہے۔ جس طرح نئی حکومت کے وزیر اعظم کے ساتھ اہم ممالک نے حلف اٹھانے سے قبل رابطے کئے اور حلف اٹھانے کے بعد مختلف ممالک کی جانب سے سفارت کاروں کی آمد کا سلسلہ ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خطے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی جس عالمی سازش کا آغاز شروع ہوا تھا۔اس میں امریکا ، افغانستان اور بھارت کو مکمل طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شاہ محمود قریشی پہلے بھی پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں لیکن اُس وقت کے پاکستان میں اور آج کے پاکستان کو درپیش مشکلات میں فرق انہیں نمایاں نظر آچکا ہے اور وہ سمجھ چکے ہونگے کہ اجن حالات کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے اس سے قبل کبھی بھی مملکت کو دبائو کا سامنا نہ تھا۔امریکا مخصوص مفادات کے ساتھ پاکستان کو ایک نئی جنگ میں الجھانے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن باجوہ ڈاکٹرئن میں واضح ہوچکا تھا کہ پاکستان اب کسی اور ملک کی جنگ میں حصہ نہیں لے گا ۔یوم دفاع پاکستان کی خصوصی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان نے بھی چیف آرمی اسٹاف کے اس موقف کی توثیق کی پاکستان اب کسی کے لئے بھی کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔یہ پاکستان کی جانب سے عالمی برداری کے لئے کھلا پیغام تھا کہ پاکستان اربوں روپوں اور ہزاروں قیمتی جانوںکے نقصان کے بعد اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ پرائی جنگ کو دوبارہ اپنے گھر لے آئے۔پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں تسلیم کرچکی ہیں کہ ماضی میں کئے جانے والے فیصلے درست نہیں تھے جس کی وجہ سے پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکا کے لئے سویت یونین کو دشمن بنایا گیا اور اب امریکا ، چین کے ساتھ پاکستانی تعلقات کو خراب کرنے کے لئے متعدد محاذوں پر مصروف عمل ہے۔افغانستان اس وقت عالمی قوتوں کے لئے جنگ کا اکھاڑہ بن چکا ہے اور عالمی قوتوں کی سازشوں سے پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لئے اپنے خارجی تعلقات میں توازن کو برقرار رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
امریکی وفد کی پاکستان مختصر آمد کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا جس سے سب بخوبی واقف تھے۔ کابل حکومت بھی وہی مطالبات دوہراتی ہے جسے امریکی ڈومور کہا جاتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کابل دورے سے بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتی ۔ کیونکہ کابل حکومت کے وہی مطالبات ہیں جو مسلسل کئے جا تے رہے ہیں۔کیونکہ شمال مغربی سرحدوں پر دونوں ممالک کے فورسز کے درمیان چھوٹے پیمانے پر کئی چھڑپیں بھی ہوچکی ہیں ، خاص طور پر 2600کلو میٹر ایریا پر خار دار باڑ لگانے پر کابل حکومت کی جانب سے عدم تعاون اور شر پسندوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ دونوں جانب سے پہلی بار ہاٹ لائن پر رابطہ اور دونوں ممالک کی خفیہ حساس اداروں کے اعلیٰ حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور بھی ہوچکے ہیں۔ چونکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نئی حکومت کے نئے منشور کو لیکر پہلی بار کابل جا رہے ہیں اس موقع پر ان کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ انہیں جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں حالات و واقعات کو سمجھنے اور پاکستان کا موقف سمجھانے میں آسانی کا سامنا رہے گا ۔
کابل حکومت ، افغان طالبان کو مزاحمت ترک کرکے سیاست میں آنے اور مذاکرات کی دو بار مشروط پیش کش کرچکی ہے ۔ لیکن افغان طالبان کی جانب سے دونوں مرتبہ مشروط پیش کش کو مسترد کیا جا چکا ہے اور غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق امریکا کی اہم عہدے دار نے افغان طالبان کے سیاسی ونگ سے مذاکرات کا غیر اعلانیہ دور بھی کرلیا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ امریکی انتظامیہ کی اہم عہدے دار کے ساتھ افغان طالبان کے دوسرے دور کے ایجنڈے کو ترتیب دے رہے ہیں جس میںاعتماد سازی کی بحالی کے لئے دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی کی خبریں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ افغان طالبان کے سربراہ کی جانب سے امریکا کو براہ راست مذاکرات کرنے کی پیش کش سامنے آچکی ہے جب بھی افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مزاکرات قبول کرنے کی پیش کش کا خیر مقدم کرنے کا کہا جاتا ہے تو افغان طالبان کی جانب سے واضح جواب ملتا ہے کہ امریکا ، سیاسی طور پر قطر دفتر بحال کرکے خود مذاکرات کرے کیونکہ جس وقت امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو افغانستان پر حکومت افغان طالبان کی تھی۔
امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے کئی ادوار ماضی میں ہوچکے ہیں ۔ لیکن یہ عموماََ غیر اعلانیہ رہے۔ پاکستان ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ پاکستان نے امریکا کے کہنے پر کئی افغان طالبان کو حراستی مراکز سے رہا بھی کیا ۔ لیکن یہ افغان طالبان رہنما ، امارات اسلامیہ اور امریکا کے درمیان خاص اہمیت کے حامل نہیں بن سکے تھے۔ امریکا ، افغانستان میں مستقل فوجی اڈا بنا کر خطے میں موجود رہنے پر بضد ہے اور ایک لاکھ تیس ہزار نیٹو افواج کی واپسی کے باوجود صرف چند ہزار فوجیوں کے بل بوتے پر اپنی مرضی کے نتائج چاہتا ہے۔ جس میںبھارت کو اولّین ترجیح کے طور پر افغانستان کے راستے پاکستان کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کا واضح موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن کے نام پر امریکی مفادات کے حصول کے لئے مملکت نے بڑی قربانیاں دیں ہیں اور امریکی حلیف بننے کی پاداش میں ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کبھی بھی اپنے مینڈیٹ سے پیچھے نہیں ہٹا۔امریکا کا یہ خیال ہے کہ بھارتی حکومت بھی پاکستان کی طرح افغانستان میں براہ راست مداخلت پر آمادہ ہوجائے گی لیکن بھارتی انتہا پسند ہندو حکمرانوں نے افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لئے دیگر ذرائع اختیار کرنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے امریکا بھارت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کئی پرکشش مراعات دے چکا ہے اور روس کے میزائل پروگرام کے بدلے اہم جنگی ساز وسامان سمیت خطے کو عدم توازن کرنے کی مراعات دینے کی معاہدے کررہا ہے۔ بھارت امریکا کی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ ایک جانب چین کو مغلوب کرنے اور ون بیلٹ ون روڈ کو رول بیک کرانے کے لئے امریکا نے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں تو دوسری جانب پاکستان پر مسلسل دبائو بڑھا کر جلد ازجلد اپنے مفادات کی تکمیل بھی چاہتا ہے۔ امریکا ، افغانستان کی جنگ کے خاتمے کے بجائے چین کو الجھانے کیلئے ای نئی پراکسی وار کے پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے جس کے جواب میں سول و ملٹری قیادت ہم زبان ہوکر ایک ہی جواب دے رہے ہیں کہ ” پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ۔ پاکستان کسی دوسرے ملک کے لئے جنگ نہیں کرے گا۔”
شاہ محمود قریشی کی کابل آمد کو ابتدائی طور پر ایک تعارفی سفارتی دورہ کہا جاسکتا ہے۔کابل کے صدر کی پاکستان آمد اور وزیر اعظم پاکستان کے افغانستان دورے کے بعد ہی خارجہ پالیسیوں میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کا تعین ہوگا۔ تاہم اس وقت کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں ہے۔ تاہم امریکا ، افغان طالبان کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے کسی معاہدے پر اتفاق رائے قائم کر لیتا ہے تو ممکن ہے کہ پاکستان میں اب بھی کئی افغان طالبان رہنما حراستی زیر نگرانی ہیں جنہیں رہا کیا جاسکتا ہے۔ گو کہ اس وقت باقاعدہ سرکاری سطح پر ایسی کوئی فہرست ظاہرنہیں ہے جس میں افغان طالبان کی گرفتاری و اسیروں کی تعداد ظاہر کی گئی ہو ۔ لیکن ماضی میںپاکستان وزرات خارجہ کی جانب سے متعدد قیدیوں کی رہائی کی تصدیق 2013میں کی جاچکی تھی۔جبکہ پاکستانی سفارتی عہدیداروں کے ذرائع کے مطابق حکومت تمام افغان طالبان رہنمائوں کو رہا کرنے کا ارادہ رکھنے کا عندیہ دے چکے تھے اس بات کا عندیہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ابو ظہبی میں ایک پریس کانفرنس میں دیا تھا۔اس وقت تک پاکستان کئی افغان طالبان کو رہا کرچکی تھی۔
اس وقت افغان حکومت کا موقف تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں پیش رفت کے لیے پاکستان میں قید طالبان رہنمائوں کی رہائی ضروری ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک و افغان حکومتیں پاکستان میں قید باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کیلیے رابطے میں ہیں جنہیں مرحلہ وار رہا کردیا جائے گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان طالبان تحریک کے نائب سربراہ ملا برادر کو بھی رہا کردے گا، تو جلیل عباس جیلانی نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ”ان کا مقصد تمام قیدیوں کی رہائی ہے”۔واضح رہے کہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے یہ پریس کانفرنس ابوظہبی میں قائم افغانستان کے سفارت خانے میں افغانستان و پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی ڈیوڈ پیئرس اور نائب افغان وزیرِ خارجہ جاوید لدّین کے ساتھ ملاقات کے بعد کی تھی۔صحافیوں سے گفتگو میں افغان نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سہ فریقی ملاقات کا مقصد تینوں ممالک کے مابین تعلقات کے سیکیورٹی و سیاسی جہات پر گفتگو کرنا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں بعض طالبان رہنمائوں کی رہائی، افغان طالبان کی جانب سے قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی تیاری اور افغان صدر حامد کرزئی کے حالیہ دورہ امریکہ کے نتیجے میں افغانستان میں جاری امن عمل میں تیزی آئی ہے۔
2013کے بعد ایک بار پھر قیدیوں کے تبادلے کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں موضوع بن چکی ہیں اس حوالے سے امارات اسلامیہ اور امریکا کی جانب سے کسی قسم کی تصدیق و تردید بھی جاری نہیں گئی جس سے ان اطلاعات کو توقعت مل رہی ہے کہ بیک ڈور چینل کے ذریعے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قطر دفتر کی بحالی کے امکانات موجود ہیں ۔ کیونکہ افغان طالبان کا مطالبہ ہے کہ مذاکرات اعلانیہ کئے جائیں تاکہ عالمی برادری قیام امن ے حوالے فریقین کے موقف کو سمجھ سکیں۔اس حوالے سے روس نے ثالثی کی پیش کش بھی کی تھی جیسے امریکا اور افغانستان نے مسترد کردیا تھا ۔شاہ محمود قریشی کابل حکومت کے پرانے مطالبات نئے کاغذ پر لے کر ہی واپس آئیں گے ۔ پاکستان کابل حکومت سے قیام امن کے لئے دو طرفہ تعلقات میں اعتماد سازی کا فروغ چاہتا ہے۔ اس لئے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے فارمولے کو عمل درآمد بنانا اور افغانستان میں ملک دشمن عناصر کی موجودگی کے خلاف کاروائی کے مطالبے سمیت خاردار باڑ کی تنصیب میں تعاون سمیت انٹیلی جنس کی سطح پر شئیر نگ جیسے معاملات کی ازسر نو تجدید کے معاملات حکومتی سطح پر زیر بحث لائے جانے کے امکانات ہیں۔اسی طرح پاکستان کی جانب سے سب سے اہم مسئلہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا عمل ہے۔ اس حوالے سے ورکنگ کمیٹی کے درمیان لائحہ عمل طے کرنے کے لئے ایک مربوط معاہدے کی ضرورت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ کیونکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی پر پاکستان کی مہمان نوازی کوتسلیم کرنے سے کئی اہم مسائل ختم ہوسکتے ہیں ۔ جس میں امریکا اور کابل کی جانب سے اس الزام کا مدوا بھی ممکن ہے کہ افغانستان سے مہاجرین کے بھیس میں کسی مطلوب و مشکوک فرد کو تلاش کرنا مشکل ہے۔ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی سے جہاںپاکستان کو کئی معاشی و دفاعی مسائل سے نپٹنے میں آسانی ہوگی تو دوسری جانب سرحد پار سے در اندازی کے الزامات کا جواب دینا بھی آسان ہوگا ۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک نئے پاکستان کے منشور کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کے حوالے وطن عزیز کی پوزیشن و مینڈیٹ کے مطابق امن کا قیام چاہتے ہیں۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ افغانستان کے اسٹیک ہولڈر ہی افغانستان میں امن کا قیام عمل میں لانے کے لئے کارگر ثابت ہوگا۔ پاکستان کے نزدیک افغانستان میں جلد از جلد امن کا قائم ہونے کی خواہش کو فوقیت حاصل ہے۔ افغانستان میں بے امنی کی وجہ سے داعش ( خراسان شاخ) افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے اور اس کے منفی اثرات سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہو رہا ہے ۔ پاکستان کو داعش فتنے سے بچنے کے لئے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ناگزیر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جنگی جنونیت سے پاکستان میں شر انگیزیوں کو بچانے کے لئے افغانستان میں بھارتی کردار کو جنگی عزائم سے باز رکھنا بھی پاکستان کے لئے ایک چیلنج رکھتا ہے۔ داعش کا فتنہ افغانستان میں عالمی قوتوں کی وجہ سے تیزی سے بڑھ رہا ہے داعش کی وجہ سے کئی مسلم اکثریتی مملکتوں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے ۔ اس حوالے ابسے امریکی رجحانات بھی تشویش ناک ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کی جانب خیرمقدمی کا پہلا قدم اٹھایا جاچکا ہے لیکن بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا ہے۔ اب کابل کیجانب بھی پاکستان اپنے پہلے سفارتی دورے میں پہل کررہا ہے اس لئے کابل انتظامیہ کو بھی ماضی کی تلخیاں و غلط فہمیاں دور کرنے کا سنہرا موقع میسر آرہا ہے۔ خاص طور پر پاکستانی وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کی دیرینہ خواہش ہوگی کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کو واپس چلے جانا چاہیے۔جنگ کے بعد مذاکرات ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔اس لئے پاکستان کی ہر ممکن کوشش و خواہش ہے کہ افغانستان میں جلد ازجلد امن قائم ہو۔ عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت سازی ہو۔ آزاد قوم کو محکوم بنانے کے کسی مزید منصوبے کی آبیاری نہ ہو ۔ خطے میں نئی عالمی جنگ کے لئے فضا کو سازگار بنانے سے گریز کی راہ اختیار کرنا سب کے مفاد میں ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے پہلے سرکاری دورے سے بڑی توقعات وابستہ کرلینا درست نہیں ہوگا لیکن دونوں ممالک کے درمیان جو خلیج پیدا ہوئی ہے اسے کم کرنے کے لئے سنجید ہ کوششیں ہی بار آور ثابت ہوسکتی ہیں۔ہر ملک کے مفادات کسی بھی مملکت سے کسی بھی سطح پر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی سرزمین کے مفادات کو ہی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور ہمیں اس بات کا ادارک ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی عوامی امنگوں کی ترجمانی کو ترجیح دیں گے۔