بون (جیوڈیسک) یاد رہے کہ جرمنی نے 2007 سے یہ ضابطہ متعارف کروا رکھا ہے کہ جرمنی میں بسنے والے غیر ملکی شہری اگر یورپی یونین سے باہر واقع کسی ملک میں شادی کرتے ہیں تو ان کے جیون ساتھی کی جرمنی کے لیے ویزے کی درخواست تبھی منظور ہو گی، جب وہ جرمن زبان میں اپنی سادہ مہارت ثابت کر سکے گا۔
اس طرح کے ضوابط متعارف کروانے کا ایک مقصد ایسی شادیوں کو روکنا تھا ، جن میں لڑکوں یا لڑکیوں کو ان کی مرضی کے بغیر زبردستی اس بندھن میں باندھا جاتا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ان ضوابط کا مقصد جرمن معاشرے میں غیرملکیوں کے انضمام کو فروغ دینا بھی تھا۔ یورپی عدالتِ انصاف کا یہ فیصلہ ایک ایسے ترک شہری کے کیس میں سنایا گیا ہے، جو 1998 سے جرمنی میں رہ رہا تھا اور جس کی بیوی کو 2012 میں یہ کہہ کر جرمنی کا ویزہ دینے اور یوں اپنے شوہر کے پاس آ کر رہنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا کہ اسے جرمن زبان نہیں آتی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ضوابط یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ویزے کے لیے زبان کی بنیادی مہارت کی شرط اس سے زیادہ ہے، جتنا کہ ضروری ہے۔
عدالت کے مطابق حکام کو کسی کنبے کے ارکان کو ایک دوسرے سے ملانے کے لیے ضروری ویزے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتے وقت پوری صورتِ حال کا جامع طور پر جائزہ لینا چاہیے اور صرف یہ دیکھ کر ویزہ دینے سے انکار نہیں کر دینا چاہیے کہ درخواست دہندہ جرمن زبان نہیں بول سکتا۔ واضح رہے کہ یورپی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی ہے۔