تحریر : شاہ بانو میر ایک دہائی قبل پاکستان کو غیر ملکی سازشوں کے ساتھ اندرونی و بیرونی انداز میں ایسے الجھایا گیا کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کسی کمزور دھاگے کے پرانے بخیے کی طرح ایک تار سے ادھیڑا تو پورا کپڑا ہی تار تار ہو گیا٬ نہ سمجھ آنے والا قہر ٬ کہاں سے سلامتی کا کوئی منصوبہ کام کرنا شروع کرے؟ ایک طرف فیکٹریوں میں خاموش پراسرار آگ کا بڑہتا ہوا تناسب ٬ دوسری طرف ٹمبر مارکیٹوں میں بھڑکنے والی خوفناک آگ ٬ اس کے علاوہ اغواء برائے تاوان٬ معصوم کم عمر بچوں کا وحشیانہ قتل ٬ معاشی قتل عام ٬ ہراساں چہرے خوف سے پھیلی ہوئی بے آرام آنکھیں ٬ بیماروں کیلیۓ دوائیں زہرِ قاتل ٬ غنڈہ راج کا عملی دور٬ موت سڑکوں پر گلیوں بازاروں میں ابلیسانہ ناچ بے رحمی سے ناچ رہی تھی٬
دولت چند ہاتھوں میں گردش کرتی رہی٬ بھوک کے ڈیرے چاروں جانب ٬ یاس و ناامیدی کا دور٬ مشکلات کی نہ تم ہونے والی یہ طویل داستان اس وقت کامیابی سے ہمکنار ہونے گی٬ جب ضربِ عزب جیسے مشکل فیصلے نے پاکستان میں کامیاب امن کے دور کا آغاز کیا افواجِ پاکستان نے بہترین حکمتِ عملی کے تحت کامیاب دھاوے بولے کہ دشمن جن علاقوں پر مضبوط گرفت کئے ہوئے ہمیں ہمارے ہی علاقوں میں مدتوں سے طاقت کے زور پر ہمارے لئے علاقہ غیر ثابت کر چکا تھا
وہاں جانا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا کے پاکستان کی عوام کو دہشت گردی سے نجات دلوانے کیلیۓضربِ عضب جیسا مشکل آپریشن شروع کیا گیا تو وہ طاقتور دشمن شیر دل افواجِ پاکستان کے سامنے ایک لحظہ نہ ٹِک سکا اور اسلحے کے بھاری بھرکم ذخائر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی٬ دوسری جانب جانباز دلیر سپاہی جنرل راحیل شریف مکمل منصوبہ کے تحت میدان میں موجود تھے٬ دہشت گردی کے مزید سراغ جہاں جہاں سے مل رہے تھے وہ اس بار کو دقیقہ فروگزاشت نہ رکھنا چاہتے تھے
Pakistan Air Force
افواجِ پاکستان کے جانبازوں کی قیمتی جانوں کا نقصان عرصہ دراز سے اٹھانے والے اس ادارے نے حتمی طور پے اس بار آر یا پار کا اصول اپنا کر تمام گندگی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا تھا٬ لہٰذا کے پی کے کی جانب سے ذرا سہولت ملنے کے بعد کراچی آپریشن کی جانب پیش قدمی کی گئی ٬ کراچی میں آپریشن کا دائرہ کار رینجرز کی کامیابیوں سے پھیلنے لگا٬ لانڈھی ہو یا اورنگی کورنگی ہو یا ناگن چورنگی سہراب گوٹھ کا ایریا ہو یا گلستان جوہر یا عزیز آباد کسی کو اس بار رعایت نہیں ملی٬ ہر آغاز کا ایک انجام ہے اور ہر برائی کی ایک آخری حد٬ ظلم اتنا بڑھ چکا تھا اس ملک میں کہ ایک طرف تو وطن کے دلیر سپاہی جامِ شہادت نوش کر رہے کہ اس ملک میں سکون ہو امن و امان ہو ٬ لیکن ہوا کیا ؟ اس کے برعکس یہاں عام انسان کو گاجر مولی کی طرح ہر روز اس بے رحمی بیدردی سے کاٹ کر ٹکڑوں میں بانٹ دیا جاتا رہا کہ دنیا چِلا اٹھی
٬ اسی لئے اس بار سوچا گیا کہ کسی قسم کی کوئی ڈِیل کوئی سمجھوتہ کوئی لین دین ہوا تو اس کو سرعام میڈیا کے ذریعے رسوا کن انجام سے دوچار کیا جائے گا٬ سو فیصد درست معلومات کی فراہمی اور حکومتِ وقت کی نیک نیتی اداروں کی فعالیت نے ایسا حسین سنگم ترتیب دیا کہ یکے بعد دیگرے کامیاب جرائم کا پردہ چاک ہونے لگا٬ اپنی زندگی میں پہلی بار مجھے اس ملک کے اداروں کی کو پے درپے کامیاب نتائج سے جانچنے کا الگ تجربہ ہوا٬ متحدہ کے رہنما کا لندن میں قتل جس پر اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس پاکستان سے تفتیشی دائرہ کار میں تعاون کی خواہاں تھی لیکن زرداری حکومت کی ترجیحات میں مفہامتی پالیسی کے تحت یہ تعاون کہیں شامل نہیں تھا٬ محض سندھ میں اپنی کمزور ناتواں حکومت کو دوام دینے کیلیۓ
٬ جس کا اظہار ان دنوں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے کیا گیا کہ اس کیس میں تاخیر کا موجب سابقہ حکومت تھی جس نے ہر ٹال مٹول سے کام لیا٬ عمران خان کا نام پھر لکھنا پڑتا ہے کیونکہ اس وقت یہی ایک نام ہے جو ہر سیاسی نام کو ہر حکومتی ادارے کو ہر منفی سوچ کو مثبت سمت متحرک کرنے کا جواز ہے٬ ہر کوئی اب جان گیا ہے کہ عمران خان نامی انسان کسی کو معاف نہیں کرے گا اس لئے لیت و لعل کی بجائے چارو ناچار کارکردگی دکھانی ہوگی٬ یہی وہ سوچ ہے جو اس ملک کو پہلی بار ہر میدان میں پسپائی مفاہمت کاغذی کامیابی کی بجائے ابتدائی حقیقی عملی کارکردگی کی نویدِ صبح سنا رہی ہے٬ کراچی وہی کراچی ہے جہاں کبھی ہر روز 10 کبھی 15 انسان یوں قتل ہوتے جیسے سبزی کاٹی ہو٬ اغواء برائے تاوان بھتہ مافیا ٬ بوری بند لاشیں ٹارگٹ کلِرز کا خونیں دور جیسے کسی امریکن ایکشن فلم کا طویل شاٹ ٬ مگر اس بار ہونے والے آپریشن میں ایک جماعت کے غل غپاڑے کے باوجود جس تندہی سے آپریشن کو جاری رکھا گیا ہے ٬ اب جیسے یہ روزانہ کا معمول پر مشتمل یہ باتیں ماضی پارینہ بن گئیں
Scotland Yard
٬ شرح اموات میں بھتہ مافیا کی رپورٹس میں اغوا میں لوٹ مار میں دہشت گردی گھیراؤ جلاؤ ٬ میں نمایاں کمی دیکھنے سننے میں آرہی ہے٬ جس سے اس شبہے کو تقویت مل رہی ے کہ ان تمام کے پیچھے کن کا ہاتھ تھا٬ خاص طور سے پھانسی کے مجرم کے آخری بیان کے سامنے آنے پر ٬ عمران فاروق کے قتل کے مشکوک دو افراد کے بیانات اور آج ماسٹر مائینڈ کے گرفتار ہونے اور اقبالی بیان کے بعد ساری الجھی ہوئی دھاگے کی گرہیں خود بخود کھلنے لگی ہیں٬ بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے ٬ کہ ہر شعبے میں غنڈہ راج اسی ایک تنظیم کی بنیادی سوچ پر مبنی تھا٬ بھارتی کرنسی بھارتی پاسپورٹ کا برآمد ہونا معنی خیز ہی نہیں اہم ترین شہادت کا نشان بھی ہے کہ ان کے روابط کن سے ہیں؟٬ پاکستان میں خاص طور سے کراچی کو جس انداز میں ایک بے معنی لفظ مہاجر کوہوا دے کر پورے ملک سے ہر لحاظ سے الگ انداز دینا ایک الگ چھاپ لگانا تا کہ یہ تفرقہ وقت کے ساتھ صرف ایک پارٹی کو فائدہ دے
٬ اب یہ لفظ بے دم ہو کر آخری سانسیں گن رہا ہے٬ جیسے دمِ آخر سسک سسک کر کہ رہا ہو کہ کوئی مہاجر نہیں اس پاکستان میں ہم سب صرف “”” پاکستانی “”” ہیں انشاءاللہ کراچی کی پڑہی لکھی ذہین قوم اس لفظ کو ختم کرے گی٬ لفظ مہاجر صرف وقت کا دیا ہوا عارضی نام تھا٬ اب تو دوسری تیسری نسل پیدا ہوئی وہ پاکستانی ہیں٬ ان کو آپ کسی طور مہاجر نہیں کہلوا سکتے٬ نہ ہی وہ بن سکتے ہیں٬ اس ملک کے نقصان اس کی کامیابی کے وہ برابر کے حصہ دار ہیں٬ کراچی خون ریزی کے دور کے بعد محصور دور سے آزاد دور میں داخل ہوا چاہتا ہے٬ ذہنوں پے چھائے ہوئے سہم کے سیاہ بادل انشاءاللہ اب ہوا میں تحلیل ہوں گے٬ سیاست چمکانے کیلیۓ کمزور الفاظ کے معنی اب کوئی نہیں بدل سکے گا٬ سیاست کیلیۓ اس جماعت کو اب کارآمد نعرہ اور منصوبہ تیار کرنا ہوگا٬ کراچی نے بہت بھاری قیمت چکائی ہے اپنی اہمیت کی ٬ لیکن اب اسکی اہمیت اس کے وطن اس کے شہریوں کے لئے استعمال ہوگی٬ کوئی منفی بیمار نقاہت ذدہ ذہن اب تخریبی انداز کو بڑہاوا دینے کیلیۓ اس شہر کی روشنیوں کو گل نہیں کر سکے گا نہ معدوم کر سکے گا٬ قتل و غارت گری کا بازار خدا خُدا کر کے تھمنے کو ہے٬ یہ انتہاء تھی بربریت کی ٬ ابتداء سے روک تھام ہو جاتی تو شائد یہ زخم اس طرح ناسور نہ بنتا ٬ اب یہ ناسور کامیاب آپریشن کے بعد گلے سڑے حصے کو اس کے انجام تک پہنچانے والا ہے٬ اپنے ملک کے انصاف اداروں پے عدم اعتماد کا اظہار کرنے والے پرائے اداروں پرائے نظام انصاف کے دلدادہ ہیں
یہی وہ غیر ملکی ادارہ ہے جو پاکستان کے بے بس لاچاروں کا حساب بھی لے گا ٬ ہزاروں کی تعداد میں وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ٬ جان تو ایک بھی بہت قیمتی تھی یہاں تو درندگی کی انتہاء ہوئی زندہ سیکڑوں کو جلایا٬ سیکڑوں کو اذیت کدوں کی ایذا رسانیوں کے بعد بوریوں میں بند جوہڑوں سے برآمد کیا گیا٬ اربوں کھربوں کا معاشی نقصان ٬ افلاس کی بہتات ٬ جرائم کی خوفناک شرح میں اضافہ٬ یہ سب حد کب کی عبور کر چکے تو ہم غیروں کی ایماء پر آج شیر بنےاور شیطانیت کو فنا کرنے کے نقطہ آغاز کی جانب بڑہےجو تسلسل سے اختتام کی جانب گامزن دکھائی دے رہا ہے انشاءاللہ ٬ نیا کامیاب پُرامن پاکستان قدرے قریب دکھائی دے رہا ہے٬ شائد ہم وہ ہیں جو انتہاء سے ابتداء کرتے ہیں٬