تحریر : علی عمران شاہین امریکی تاریخ میں سب سے متنازع صدر نے بالآخر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ 45ویں امریکی صدر بن گئے۔ حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں انہوں نے اپنی انتخابی مہم اور جاری کردہ منشور کے مطابق اسلام کو سب سے بڑھ کر نشانہ بنایا۔ پہلی تقریر میں ہی انہوں نے کہا کہ وہ مہذب دنیا کو جمع کر کے انتہا پسند اسلام کوکرئہ ارض سے سے نیست و نابود کر دیں گے۔ ان کا یہی جملہ سب سے زیادہ زیربحث آیا اور اب بھی آ رہا ہے۔ اس جملے پر جب دنیا میں بات زیادہ بڑھی تو انہوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا، اگلے روز نہ صرف اس بیان کو دہرایا بلکہ یہی مؤقف زیادہ کھل کر بیان کیا۔ پھر کہا کہ وہ مخالفین کے خلاف تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان بالعموم اور امریکی مسلمان بالخصوص ان کی انتخابی مہم اور بیانات سے پہلے ہی خائف تھے جس میں اب حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسلام کے متعلق ایسی باتیں کس نے بتائیں اور ازبر کروائی ہیں۔ دین اسلام تو سراپا سلامتی ہے۔
امریکی صدر اپنے ملک کے اندر موجود کئی ملین مسلمانوں کے بارے میں بخوبی جانتے ہی ہوں گے کہ انہوں نے کبھی کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں یا امریکی مفادات پر کبھی کوئی حملہ نہیں کیا۔ باقی دنیا کو تو چھوڑیئے ،صرف امریکہ میں اس وقت ٹرمپ کی مہم سے مسلمانوںکے خلاف نفرت ہی نہیں،عملاً حملوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال دنیا کے دیگر خطوں اور علاقوں کی ہے۔ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی عمر کے لوگ کوئی جگہ بتا دیں ،جہاں مسلمان کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو قتل و زخمی کر رہے ہوں جیسے وہ خود لہولہان ہیں۔ سب سے پہلے دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا کو ہی دیکھ لیں جہاں کچھ عرصہ پہلے تک ایک ہی عیسائی ریاست فلپائن تھی۔فلپائن میں مسلمانوں نے یہاں طویل عرصہ آزاد حکومت بھی چلائی لیکن اسے رخصت ہوئے ایک زمانہ بیت چکا ہے اور اس وقت فلپائن کے مسلمان تاریخ کی طویل ترین تحریکِ آزادی چلا رہے ہیں لیکن انہیں کوئی سننے والا نہیں۔ یہاں مسلمان اسی پاداش میں دہائیوں سے قتل ہو رہے ہیں لیکن کہیں تذکرہ نہیں۔ اسی براعظم ایشیا میں امریکہ، یورپ اور دیگر عالمی طاقتوں نے پوری تندہی سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا توڑ کر مشرقی تیمور کے نام سے دوسرا عیسائی ملک بنایا۔ یہ ملک خالصتاً مذہبی بنیاد پر بنایا گیا ۔کہا گیا کہ مشرقی تیمور کے عیسائی مسلمانوں کے ساتھ رہ نہیں سکتے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقی تیمور کے جن لوگوں کو عیسائی قرار دے کر انڈو نیشیا توڑا گیا، ان کی اکثریت کوعیسائیت کا کچھ اتہ پتہ نہیں ۔ مشرقی تیمور کی آزادی میںمقامی مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر خون بہایا گیا، جب مسلمان یہاں سے ہجرت کر کے مغربی تیمور میں آئے تو ان کی مساجد کومکمل طور پر اجاڑ دیا گیا۔
ایسی ہی حالت زار براعظم افریقہ میں ہے جہاں 2011 میں مسلم دنیا کا رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک سوڈان توڑ کر عیسائی جنوبی سوڈان بنا یا گیا۔ یہاں بھی علیحدگی صرف مذہب کی بنیاد پر ہوئی کہ جنوبی سوڈان کے عیسائی شمالی سوڈان کے مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ظلم کی اگلی انتہا تو یہ ہوئی کہ سوڈان کو توڑنے کے بعد اب تک اس کی جان نہیں چھوٹی اور اب تک ایک علاقے ”ابییے” کو متنازع رکھا گیا ہے کہ یہ علاقہ تیل سے مالا مال ہے۔ اس لئے اسے بھی جب تک سوڈان سے چھین کر جنوبی سوڈان کے حوالے نہیں کر دیا جاتا، عالمی طاقتیں چین کا سانس نہیں لیں گی ۔ جنوبی سوڈان سے نکلنے والا تیل بھی سوڈان اپنے ملک سے گزار کر اپنے ساحل سے دنیا تک پہنچانے اور فروختگی کے انتظامات کرنے کا پابند ہے۔سوڈان توڑ دیا گیا لیکن اس پر امریکی و عالمی پابندیاں اب تک عائد ہیں۔ اسی براعظم افریقہ کے ایک ملک جسے وسطی افریقی جمہوریہ کہا جاتا ہے میں 2015ء میں 15لاکھ مسلمانوں کو صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر مار مار کر مقامی عیسائیوں نے بھگا کر چاڈ پہنچا دیا۔ ہزاروں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، زندہ جلایا اور قطاروں میں لٹا لٹا کر مرغیوں کی طرح ذبح کیا گیا لیکن یہ سارا کچھ کرنے والے نہ انتہا پسند قرار پائے اور نہ اسے مذہب سے منسوب کیا گیا۔ یہ مسلمان اب کس حال میں رہ رہے ہیں کسی نے اس پر کبھی بات نہیں کی۔
Extremism
یہ باتیں اس عیسائی دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی ہیں جس کی مقدس ترین مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر سارے امریکی صدر کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھایا ہے۔ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کو یورپ کے اندر 1992ء کے بعد کئی سال تک مسلم قتل عام بالکل یاد نہیں، جب یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد مسلم اکثریتی بوسنیا ہرزے گووینیا میں صرف مذہب کی بنیاد پر لاکھوں کی تعداد میں قتل کیا گیا ، ان کی مساجد کو تباہ کیا گیا تھا۔ یہ حالات تب سے اب تک موجود ہیں اور بوسنیا کو جس طرح لنگڑا لولا کر کے آزاد کیا گیا، وہ بھی ایک دردناک باب ہے۔ وہاں مسلمانوں کے اسلام سے وابستہ ہونے کی ہی تو وجہ ہے کہ ابھی تک بوسنیا اور کوسووا کو آزاد ممالک تسلیم کرنے کے باوجود بھی نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہاں مسلمانوں کا خالصتاً مذہبی بنیادوں پر عیسائیوں نے قتل کیا لیکن عیسائیت کے ساتھ انتہا پسندی کا لفظ نہ لگا بلکہ اب تک کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ سارے عالم میں ہر جگہ مسلمان ہی لُٹ پٹِ رہے ہیں۔ برما (میانمار) میں مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر بودھ انتہا پسند خوفناک طریقے سے قتل کر رہے ہیں، ان کے گھر، آبادیاں، مساجد جلا رہے ہیں، جن کے مذہب میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ذی روح کو مارنا بھی سب سے بڑا جرم ہے لیکن چونکہ مسلمانوں کا شمار کسی معمولی مخلوق کے درجے میں بھی نہیں ہوتا، اس لئے اس پر بات ہی نہیں ہو سکتی۔
اسی امریکہ نے اسی برما پر سے ساری پابندیاں اسی عرصے میں ہٹائیں بلکہ مزید بڑھ کر باراک اوباما نے برما کا خصوصی دورہ کیا اور دوستی کی پینگیں مزید مضبوط کیں۔ مقبوضہ کشمیر، افغانستان، عراق، شام، فلسطین، لیبیا، صومالیہ اور دیگر کتنے ہی خطوں میں روزانہ مسلمانوں کا خون مذہب کی بنیاد پر بہہ رہا ہے لیکن واحد سپرپاور کا صدر انہی مظلوموں کو نشانے پر رکھ رہا ہے۔ ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ امریکہ و یورپ یا دیگر مغربی دنیا میں اسلام کو انتہا پسندی سے جوڑنے اور اس کی ”بیخ کنی” کیلئے ان چند حملوں کا نام لیا جاتا ہے جو حالیہ چند برسوں میں ان کے ملکوں میں ہوئے۔
امریکی صدر اور ان کے حامیوں کو شاید یاد نہیں کہ اس طرح کے ہر حملے اور ہر دہشت گردی کی ہر مسلمان نے مذمت کی کہ کسی بھی مظلوم، نہتے اور بے گناہ شخص کا قتل اسلام میں ساری انسانیت کا قتل ہے۔ ایسے واقعات میں اگر کوئی مسلمان ملوث پایا گیا تو اسے مسلم ملکوں نے سزا بھی دی لیکن مغرب نے جواب میں ایسا کبھی کچھ نہیں کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہماری ساری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،ہم نے کبھی غیر مسلموں کو مذہب مخالفت کی بنیاد پر قتل نہیں کیا۔اہل اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے دوسرے مذاہب کی ہمیشہ حفاظت کی۔ہم پوچھتے ہیں کہ اگر ان کے ملکوں میں کوئی مسلمان جرم کرے تو اس کی سزا سارے مسلمانوں بلکہ پورے مذہب اسلام کو دینا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں پر 60ہزار سے زیادہ حملے ہو چکے، لاکھوں مسلمان قتل، ہزاروں مساجد گرائی جا چکیں لیکن امریکہ یا اقوام متحدہ میں آج تک کسی ہندو تنظیم کو نہ انتہا پسند کہا گیا اور نہ اس پر کسی پابندی کا اعلان ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ ان کی ٹیم اور ان کے سارے حامیوں کو انصاف کے ترازو میں سارے معاملات تول کر فیصلہ کرنا چایئے۔ کیا اس طرح اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کر کے وہ انہیں دنیا سے مٹا لیں گے اور کیا دنیا کو پرامن بنا لیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں نتائج حاصل کرنا بالکل ناممکن ہے۔ ہم انہیں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ پہلی و دوسری جنگ عظیم کو بھی ضرور یاد کر لیں جن میں کروڑوں انسانوں کا قتل مسلمانوں نے نہیں کیا تھا۔ واحد ایٹم بم کا استعمال کسی مسلمان ملک نے نہیں صرف امریکہ نے کیا تھا۔ عراق پر حملے اور 15لاکھ مسلمانوں کی شہادت اور پورا ملک برباد کرنے پر محض ”سوری” کسی مسلمان نے نہیں، امریکی اتحادی برطانیہ نے کی ہے۔معاملات اور واقعات کو حقائق کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ اور سبھی مذاہب کے ماننے والے امن سے رہ سکیں گے، وگرنہ سب خطرے میں رہیں گے اور دنیا کو کبھی امن نصیب نہیں ہو گا۔