واشنگٹن (جیوڈیسک) کشیدگی کے شکار، افغانستان کے ایک شمالی صوبے میں خواتین کے ایک گروپ نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں، یہ عہد کرتے ہوئے کہ وہ داعش گروپ کے نام پر لڑنے والے سرکش طالبان اور شدت پسندوں کے خلاف جنگ کریں گی۔
تقریباً 150 خواتین نے، جن میں زیادہ تر اُن کی ہے جن کے اہلِ خانہ شمالی صوبہٴ جوزجان میں طالبان سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے، کہا ہے کہ وہ اپنے اضلاع سے تعلق رکھنے والے مرد حضرات کے ہمراہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔
مملکات، دو میں سے ایک گروپ کی کمانڈر ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو بتایا کہ ’’اُنھوں (شدت پسندوں) نے میرے تین بیٹوں کو قتل کیا اور ہمارے روزگار کو نذر آتش کیا۔ اب ہم داعش اور طالبان سے لڑنے کے لیے میدان میں نکل پڑی ہیں‘‘۔ زیادہ تر افغانوں کی طرح، وہ نام کا صرف پہلا حصہ ظاہر کرتی ہیں۔
افغان خواتین ملک کی فوج اور پولیس فورس میں شامل ہیں۔ لیکن، خواتین کی صوبائی ملیشیا 2001ء کی طالبان کی حکمرانی کے بعد پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے، جس نے مردوں کے ہمراہ لڑنے کا عہد کیا ہے۔
میوند کی ایک افغان خاتون، ملالہ افغانستان کی ایک قومی ہیروئن رہی ہیں، جنھوں نے سنہ 1880 میں میوند میں برطانیہ کی فوج کے خلاف لڑائی میں افغانوں کی مدد کی تھی۔ اُنھوں نے لڑتے ہوئے اپنی جان دی تھی۔
طالبان شدت پسندوں نے سرکشی کے شکار جوزجان کے علاقے کے علاوہ، متعدد شمالی صوبوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، جو عبدالرشید دوستم کا آبائی جائے پیدائش ہے، جو افغانستان کے نائب صدر اور علاقے کے مردِ آہن ہیں۔ طالبان فورسز افغان سکیورٹی افواج کے ساتھ بڑے پیمانے پر لڑائی میں ملوث رہی ہیں، جس سے دوستم کو شہ ملی ہے کہ وہ زیادہ تر وقت اپنے علاقے میں گزاریں، جہاں وہ طالبان مخالف کارروائیوں کی قیادت کرتے ہیں۔
مسلح خواتین کہتی ہیں کہ اُنھوں نے بڑی اذیت برداشت کی ہے، اور اب اُن کے لیے شدت پسندوں کی جانب سے مزید مظالم برداشت کرنا محال ہے۔
نفیسہ، درزاب کے ضلعے میں اس گروپ کی ایک رُکن ہیں۔ اُن کے بقول، ’’اُنھوں نے میرا بھائی، میری بہن، اور چچا زاد کو قتل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اُن کے خلاف اسلحہ اٹھایا ہے‘‘۔
ایک اور خاتون، جن کا بیٹا زخمی ہوا، جب کہ اُن کے کئی چچا زاد طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے، کہا ہے کہ خواتین کے حق میں کھڑا ہونا اُن کو بااختیار بنانے کے مترادف ہے۔