واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی فوج نے کہا ہے کہ ”پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر کی امداد روکنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے، جس کی منسوخی کی وجہ پاکستان کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کُن اقدام نہ کیا جانا ہے”، جس فیصلے کے باعث دونوں ملکوں کے بگڑتے ہوئے تعلقات کو نیا دھچکہ لگے گا۔
‘کولیشن سپورٹ فنڈز’ کہلانے والی امداد کی معطلی اُس وسیع اقدام کا ایک حصہ ہے جس کا اعلان گذشتہ برس کے آغاز پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان کو یہ امداد ”محض جھوٹ اور دھوکہ دہی” پر مبنی کارکردگی کے عوض انعام میں دیے جانے کا الزام لگایا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان باغیوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے، جو 17 برس سے ہمسایہ افغانستان کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جس الزام کو پاکستان مسترد کرتا ہے۔
لیکن، امریکی حکام نے اس امکان کو رد نہیں کیا تھا کہ اگر پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرتا ہے تو اُس کی امداد جاری رہ سکتی ہے۔
خاص طور پر، امریکی وزیر دفاع کے پاس اس بات کا اختیار تھا کہ اس موسم گرما کے دوران ‘کولیشن سپورٹ فنڈ’ میں 30 کروڑ ڈالر کی امداد بحال کر سکیں، اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتے کہ سرکشوں کے خلاف پاکستان ٹھوس اقدام کر رہا ہے۔
امریکی اہلکار نے بتایا کہ ”میٹس اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں”۔
پینٹاگان کے ترجمان، لیفٹیننٹ کرنل کون فالکنر نے بتایا ہے کہ ”پاکستان کی جانب سے ‘جنوبی ایشیا کی حکمت عملی’ کی حمایت میں فیصلہ کُن اقدام نہ کرنے پر، باقی 30 کروڑ ڈالر کی امداد معطل ہو گئی ہے”۔
فاکنر نے کہا کہ اگر کانگریس منظوری دیتی ہے تو پینٹاگان یہ رقم ”دیگر ضروری ترجیحات” پر استعمال کرے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ اس سال کے اوائل میں کانگریس نے مزید 50 کروڑ ڈالر کی پاکستان کو امداد روک دی تھی، جس کے بعد روکی گئی کُل رقم 80 کروڑ ڈالر ہو گئی ہے۔