شدت پسند اسرائیل

Allah

Allah

بنی اسرائیل اﷲ پاک کی سب سے محبوب قوم تھی، یہ وہ قوم تھی جس پر اﷲ نے سب سے زیادہ انبیاء کرام نازل فرمائے، بعض روایات میں آتا ہے کہ چالیس ہزارانبیاء مبعوث فرمائے،یہ وہ قوم تھی جس پر حضرت دائود ،حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ،حضرت صالح اور بہت سے جلیل والقدر انبیاء علیہ السلام بھیجے گئے،کبھی اﷲ نے حضرت صالح کو معجزے کے طور پر اونٹنی دی،تو کبھی حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر بلا کر خود کلام کیا، تو ایک جگہ من ہ سلوٰی اترا،غرض یہ کہ اﷲ نے سب سے زیادہ مواقع اسی قوم کو دیئے کی کسی طرح بنی اسرائیل کی قوم سدھر جائے،کسی طرح یہ لوگ بت پرستی اور شرک سے پاک ہوکر ایک اﷲ واحدولاشریک کے ماننے والے بن جائیں۔اﷲ پاک نے اس سرزمین پر ابراہیم ،یعقوب ،یوسف ،دائود جو خالص ایک اﷲ کی عبادت کرنے کے لئے سالوں سال لوگوں کو دعوت دیتے رہے،طرح طرح کی تکالیف برداشت کیں مگر اﷲ کے دئیے ہوئے کام سے باز نہ آئے ،دین حق کی طرف بلاتے رہے، نتیجے کی کوئی پروہ نہیں بس جو حکم اﷲ نے دیا ہے اس پر عمل کرنا ہی ان انبیاء کرام نے اپنی زندگیوں کا محور بنا لیا۔مگر شیطان نے ہمیشہ کی طرح راہ راست پر چلنے والے دین کے سچے بندوں پر حملہ کیا ہے اور بنی اسرائیل کی قوم کے حوالے سے شیطان بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔

ابلیس نے ہمیشہ ہی ہر اس کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے جو اﷲ کو راضی کرنے کے لئے کیا جائے۔فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے، وہاں کے رہنے والے ایک اﷲ کے ماننے والے ہیں ،بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے، جب سے دنیا کا آغاز ہوا اﷲ نے بیت المقدس کو ایک خاص عزت سے نوازا۔کافر قوم ہمیشہ سے ہی مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھی ہے، کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچادیا جائے بس یہی آرزو ہے انکی،امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانا شروع کردیا، آہستہ آہستہ کرکے فلسطین پر یہودی آبادی کو قوت پہنچائی، اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد بن کر دنیا کے سامنے آیا۔1948میں اسرائیل کا وجود عمل میں آیا ،شروع شروع میں یہودی قوم نے کوئی شرارت نہ کی،مگر کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ یہودیوں نے اپنی شرانگیزیاں شروع کردیں ، مسلمانوں کا قتل عام، لوٹ مار ،توڑپھوڑ کرنا معمول بن گیا،ایک وقت ایسا آیا کہ آدھے سے زیادہ فلسطین پر اسرائیلی یہودیوں نے اپنا تسلط قائم کرلیا۔عرب ممالک اسرائیل کو مسلمانوں کا دشمن مانتے تھے یہی وجہ ہوئی کہ عرب اقوام نے ملکر اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغازکردیا

اس جنگ میں اسرائیل کی امریکہ نے کھلے عام حمایت کی اور اسرائیل کے دفاع میں بھر پور انداز میں امداد دی،اور اس جنگ کے بعد اسرائیل کی جرئات اور زیادہ بڑھ گئی۔مسلمانوں کی مساجد،تعلیمی ادارے،اور مسلمانوں کی املاک کی بے حرمتی کی جانے لگی،فلسطین کے مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام ہونے لگا،بوڑھے اور ضعیف مسلمانوں کے ساتھ تذلیل کا رویہ اپنائے جانے لگا،عورتوں کی حرمتیں خاک میں ملادی گئی،معصوم بچوں کے سروں سے انکے ماں باپ کا سایہ چھین لیا گیا، مگر دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔دنیا کے دو سو ملک ہیں مگر کسی کو بھی اسرائیل نے سفاکی نظر نہ آئی،امریکہ جو ساری دنیا کا بادشاہ بنا بیٹھا ہے، جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن گردانتا ہے وہ بھی کچھ نہ کہہ سکا ، بلکہ ظلم کی انتہا یہ کہ ہر ظلم جو اسرائیل معصوم فلسطین کے لوگوں پر کرتا ہے امریکہ کی کتاب میں وہ ظلم ہے ہی نہیں بلکہ بقول امریکی صدر جارج بش،Israel has a right to act in self defence۔اس جملے سے باخوبی اندازہ ہوجانا چائیے کہ دنیا کی نظر میں کبھی کوئی یہودی،یا عیسائی شدت پسند ہوہی نہیں سکتا،

Bait ul Muqaddas

Bait ul Muqaddas

دنیا میں دہشتگرد صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ اسرائیلی سفاکی کی کہانی اس وقت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے جب اسرائیلی افواج غزہ شہر میں داخل ہوئیں اور وہاں خون کی ندیاں بہادی گئیں ،بیت المقدس میں یہودیوں نے داخل ہوکر بدتمیزیاں کیں ، مسلمانوں کے قدیم آثار کو تباہ کردیا۔یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود کے مطابق جس جگہ آج بیت المقدس ہے وہاں دراصل حضرت سلیمان کا ہیکل دفن ہے، اسی لئے تو یہودی آج مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے نیچے کھدائی کررہے ہیں ،یہودی عقیدہ ہے کہ ہیکل سلیمانی اسی جگہ آج بھی موجود ہے،اسرائیل کی ایک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ویلیم ڈیوڈ کے مطابق مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کرنے کا اسرائیلی مقصد جو اس نے دنیا کو باور کرایا ہے وہ یہ ہے کہ مسجد کے نیچے ہیکل سلیمانی دفن ہے لیکن سچ تو یہ ہے اسرائیل جھوٹ بول رہا ہے۔پروفیسر آگے کہتے ہیں کہ تحقیق کرنے سے یہ بات میں کہنے میں حق باجانب ہوں کہ مسجد اقصیٰ یا بیت المقدس کے نیچے ہیکل سلیمانی کا کوئی آثار نہیں ،یہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری کرنے اور انکے مذہبی جذبات کے ساتھ کھیلنے کی اسرائیلی سازش ہے۔

اسرائیل امریکہ کی وہ ناجائز اولاد ہے جو صرف ایک خاص ٹاسک کو سرانجام دینے کے لئے بنایا گیا ہے اور وہ ٹاسک ہے مسلمانوں کو اذیتیں پہچانا۔اسرائیلی ظلم کے عاری فلسطینی مسلمانوں نے یہودیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر کھا ہے، حماس کے نام سے ایک جہادی تنظیم اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار ہے،اسرائیل ظلم کرتا ہے تو وہ act of self defence بن جاتا ہے لیکن اگر حماس کوئی کاروائی کرے تو وہ دہشتگردی کے ضمرے میں آجاتا ہے۔

کیسا انصاف ہوا،اگر اسرائیلی طیارے فلسطینی علاقوں پر بمباری کرے یا پھر مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے،بچوں ،بوڑھوں ، جوانوں کو خون میں نہلادیا جائے اور عورتوں کی عزتیں لوٹیں جائیں ،یہ سب شدت پسندی نہیں،یہ دہشتگردی نہیں، ہاں اگر اسکے جواب میں حماس یا فلسطینی مسلمان کچھ کریں تو فورا ً شور مچ جاتا ہے کہ اسرائیل کے مفادات پر حملہ کیا جارہا ہے،اس ناجائز اولاد کا ناجائز باپ امریکہ فوراًدنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف بکواس کرنا شروع ہو جاتا ہے،کیا ہم مسلمان واقعی میں دہشتگرد ہیں ؟ کیا ظلم کو برداشت کرنے میں ہی عافیت ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں، اﷲپاک نے تو ظلم کو خاموشی سے برداشت کرنے کو بھی ظلم کے برابر کہا ہے، نبی پاک ۖ نے تو کہا تھا کہ ظلم ہوتا دیکھو تو اسے بازور طاقت روکو،کیونکہ ظلم دیکھ کر خاموش رہنے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔

فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کب تک ہم غلاموں کی طرح جی کر یہ ظلم سہنا چاہتے ہیں ،پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کئے تھے تو فلسطین کے مسلمانوں نے جشن منایا تھا، مسلمانوں میں میٹھایا ں تقسیم کی گئی تھیں ،وہاں کے رہنے والے مسلمانوں نے یہ خوشی کیوں منائی ۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا؟ نہیں ، خوشی منانے کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کا مسلمان جانتا ہے کہ اگر اﷲ نے انکے نصیب میں اسرائیلی تسلط سے آزاد ہونا لکھا ہے تو یقیناً پاکستان ہی وہ ملک ہے جو فلسطین کے مسلمانوں کو آزاد کروا سکتا ہے۔ فلسطینی عوام پاکستان سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ کب انھیں آزادی دلوانے پاکستان آئے گا،اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں یا ابھی نیند باقی ہے… اﷲ کرے کہ فلسطینی مسلمان جلد آزادی کا سورج دیکھے آمین

Gularsh Shahid

Gularsh Shahid

گل عرش شاہد
[email protected]