حضرت آدم سے لے کر آج تک دن بھی آئے اور راتیں بھی، خوشی بھی آئی اور غم بھی، خزاں بھی آئی او ر بہار و خار بھی، رنج بھی بھی اور مسرت بھی، نجانے کتنے طوفان اُٹھے اور کتنی کشتیاں منجدھار کا شکار ہوئیں اور کتنی ہم کنار ساحل ہوئیں۔ کتنے ساتھ بچھڑے اور کتنے ہم آغوش ہوئے۔ نجانے منزل پر پہنچنے والے کتنے تھے اور راہ گُم کردہ کتنے تھے۔ نیرنگی فطرت نے کیا کچھ نہ کیا۔ کیا کیا ہوا اور کیا کیا نہ ہوا۔ جو ہوا سو ہوا جو ہو گا سو ہو گا لیکن 61 ہجری محرم الحرام کا پہلا عشرہ تاریخ آدم میں سرخ و غیور اور اپنی مثال آپ ہی تھا۔
اسلامی سال شُروع بھی قربانی سے ہوتا ہے اور ختم بھی قربانی پر ہوتا ہے۔ شروع والی قربانی حضرت امام حسین علیہ السلام کی اور اُن کے رُفقاء کی قربانی اور سال کے اختتامی مہینے والی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی (جو اللہ کی رضا کے لیئے اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے تھے مگر اللہ پاک نے چُھری کے نیچے دُنبہ رکھ دیا) قافلہ ِ اہلبیت کے سالارِ اعظم ، نواسہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لخت جگر فاطمةُالزاہرا سلامُُ اللہ علیہا کا کارنامہ رہتی دنیا تک عالم ہُو درخشندہ اور باقی و دوام رہے گا۔ حسین ابن علی نے شان ، رسالت، شان امامت، شان صداقت اور شان سخاوت کو متعارف کروایا۔ کربلا کے میدان میں مع اہل بیت کے امام عالی مقام علیہ السلام نے بڑے صبر و استقلال کے ساتھ اسلام کی خاطر قربان ہو کر ملت اسلام کو چار چاند لگا دئیے ۔ 61 ہجری تک محرم الحرام کو میدان کربلا میں شہید ہونے والے پیاسے حضرت امام حسین کو سارا زمانہ سلام کہتا ہے۔ حق کو بچانا آپ کا نصب العین تھا۔
آپ نے سر دے کر حق کی لاج رکھ لی۔ زمانے والے آپ کو سچائی کا پیکر تسلیم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ امام عالی مقام کی شہادت ہر مذہبی عقیدے کی زنجیروں سے آزاد ہو کر حق پر مر مٹنے کا اور امن کا پغام دیتی ہے۔ غیر مسلم بھی حسین ابن علی کے اس مقدس مشن کو سراہتے ہیں اور اپنا نذر انہء عقیدت تا حشر پیش کرتے رہیں گے۔
Muharramul Haram
1942ء میں ہندستان میں (Hussain Day) منایا گیا۔ جس میں سری رام جی بھائی نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے 72 رُفقاء کے ساتھ جان دے کر جو دائمی فتح حاصل کی وہ کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا ممکن نا تھی۔ اُنہوں نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ تعداد نہیں بلکہ میدان عمل میں جذبے کی صداقت بروئے کار آتی ہے۔ مہاتما گاند ھی کہتے ہیں کہ میں نے کربلا کی داستان اُس وقت پڑھی جب میں نوجوان ہی تھا۔ اس نے مجھ کو دم بخود کر دیا۔ میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ہندوستان کی نجات حسینی اصولوں پر عمل کرنے سے ہو سکتی ہے۔
نامور منصنف ” تھامس کار لائل” اپنی مشہور کتاب (Worship Heroes And Hero) میں لکھتے ہیں کہ میدان کربلاکے المیہ سے ہمیں بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ ا لسلام اور آپ کے ساتھیوں کو خدا پر یقین کامل تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق و باطل کی کش مکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ قلیل تعداد ہوتے ہوئے بھی حضرت امام حسین علیہ ا لسلام کی فتح نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ شری گورونانک لکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کئے تھے حسین ابنِ علی نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا اور ان پر اہل بیت کی مہر لگا دی۔ حضرت امام حسین علیہ ا لسلام کا اصول اٹل ہے۔ حضرت امام حسین علیہ ا لسلام نے جس قلعہ کو قائم کیا اسے کوئی نہیں گرا سکتا۔ سردار کرتار سنگھ کہتے ہیں کہ کاش دنیا پاک امام حسین علیہ ا لسلام کے پغام، ان کی تعلیم اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل اپنی اصلاح کرے۔ ڈاکٹر کرسٹوفر کہتے ہیں کہ اس درد ناک واقعہ نے جو دسویں محرم کو کربلا میں پیش آیا بنی اُمیہ کی طاقت کو فنا کر دیا اور حسینی نظریہ کی شان کو قائم کر دیا۔ اور دین اسلام کو ساری دنیا میں قابل قبول بنا دیا۔ کرشن گوپال حضرت امام حسین علیہ ا لسلام سے عقیدت کا بھر پور اظہار کچھ یوں کرتے ہیں کہ :
غیر مسلم بھی ہیںشریک غم مسلمانوں کے ساتھ آج ہمدردی ہے انساں کو انسانوں کے ساتھ رام پرکاش ساحر کہتے ہیں کہ ہے حق و صداقت میرا مسلک ساحر ّ ہندو ہوں مگر دشمنِ شبیر نہیں
جب دنیا میں غفلت بڑھ جائے تب خدا کا قانون قربانی کا طلب گار ہوتا ہے اور اس کے بعد سارے راستے کھل جاتے ہیں۔ بہادرانہ کارنامے ایک قوم یا ملک تک محدود نہیں ہوتے بلکہ تمام انسانی برادری کی میراث ہوتے ہیں اور دلیری کا سبق ہمیں صرف تاریخ کربلا سے ہی ملتا ہے۔ اور وہ کسی تاریخ سے نہیں ملتا۔ اچھوت لیگ ڈھاکہ کے صدر شری سوامی کلجگا نند نے مظلوم امام حسین علیہ ا لسلام کے مقدس مشن کو سراہا اور پاک امام حسین علیہ ا لسلام کی بار گار میں نظرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ ” ہمیں اچھوت سمجھا جاتا ہے دنیا والے ہمیں طرح طرح کے دکھ دیتے ہیں۔
Terrorism
ہم سب مظلوم ہیں مگر ہم سب اچھوت، مظلوم امام حسین علیہ ا لسلام کی قدر کرتے ہیں اور ان کی مظلومیت کی پر درد داستان غور سے سُنتے ہیں” انہوں نے کہا کہ یزید نام ہے بُرائی کا جس کے سامنے امام حسین علیہ ا لسلام نام ہے امن اور فتح کا۔ یزید کے پیروکار آج بھی موجود ہیں جو دہشت گردی بم بلاسٹ اور خود کش حملے کر کے اس کے پیروکار ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور شیطانی کام کر کے ملک میں بد امنی پھیلا کر کئی بے گناہ قیمتی جانوں کا ضیا کر رہے ہیں۔ آئیں مل کر عہد کرتے ہیں کہ ہم سینہ سپر ہوکر یزیدی صفوں کا مقابلہ کر کے اپنے ملک اور قوم کو تباہی سے بچا کر امن و امان کا گہوارہ بنائیں گے خدا وند کریم ہمیں مشن حضرت امام حسین علیہ ا لسلام سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ (اٰمین)
آنکھوں کے ساحلوں پہ اشکوں کا ہے ہجوم شائد غم حسین کا موسم قریب ہے
تحریر : سید مبارک علی شمسی ای میل ایڈریس۔mubarakshamsi!@gmail.com