تحریر : سید امجد حسین بخاری نیلی آنکھیں، ابن انشاء کے خمار گندم کی طرح خمار سے بھرپور، مونا لیزا اور قلو بطرہ کی آنکھوں کا دوسرا جنم ، ان آنکھوں میں کیا تھا؟ ہر مردوزن اس کے خمار میں مبتلا تھا۔ آنکھوں کا دیوانہ میں بھی ہوں ان آنکھوں میں حسن تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا ، زوم کرکے دیکھا ، ملٹی میڈیا پر بڑی سکرین کے ذریعے دیکھا۔ ان آنکھوں میں مجھے شوخی دکھائی نہیں دی، وہ ادائیں نظر نہ آئیں۔ وہ اشارے بھی سمجھ نہیں آئے جو پوری دنیا کی نازنینوں، حسیناؤں اور دوشیزاؤں نے ایک نگاہ میں پہچان لئے۔ جی میں انہی آنکھوں کی بات کر رہا ہوں جو اسلام آباد کے ایک ہوٹل پر چند ایام قبل تو گاہگوں کی راہ تکتی تھیں مگر پاکستان و ہندوستان سمیت دنیا بھر کی خواتین ان آنکھوں کو دیکھنا پسند کر رہی ہیں۔مجھے ان آنکھوں میں حیا نظر آئی۔
رزق حلال کی طلب دکھائی دی، اللہ جی کی نعمتوں کا شکرانہ جھلکتا محسوس ہوا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی نگاہوں نے ان آنکھوں کو کھوج لیا ، انہیں ان آنکھوں کو بیچنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ مگر مجھے انہی آنکھوں کے بھارت میں تذکروں نے پریشان کردیا۔جی ہاں اسی بھارت میں ان آنکھوں کا تذکرہ جس کی فوج نے ہزاروں نوجوان، بزرگوں ، عورتوں اور بچوں کو اپنی پیلٹ گنوں کے ذریعے بینائی سے محروم کردیا۔ پاکستانی قوم ان بینائی سے محروم افراد کی آنکھوں کی آواز بن رہی تھی کہ اچانک پاکستان سے ہی ایک نیلی آنکھوں والا خوبرو نوجوان سوشل میڈیا کی زینت بنا ، پاکستان سے زیادہ اس کی پزیرائی بھارت میں ہوئی۔
اخبارات ، میگزینز اور ٹی وی چینلز نے اس کی تعریفوں میں آسمان و زمین ایک کردئیے۔میگزینز کے مرکزی صفحے اسی نوجوان کی تصویروں سے مزین ہونے لگے۔ ایک جانب اس نوجوان کی شہرت کی وجہ سے مجھ جیسا واجبی شکل و صورت کا حامل نوجوان حسد میں مبتلا ہو رہا تھا ، دوسری جانب دوشیزائیاں اس پر فریفتہ ہوئی جا رہی تھیں۔اسی کشمکش کے دوران ایک دوست نے مجھے پیغام بھیجا۔ ” اے اہل پاکستان! اگر چائے والے کی مخمو ر آنکھوں سے فرصت ملیتو مظلوم کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں کی طرف بھی توجہ کرنا کہ جن کی بینائی پیلٹ گن کے چھروں سے ضائع ہوگئی ہے۔” اس دوست کے پیغام نے میرے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔
میں سوچنے لگا کہ کشمیر کے نوجوانوں کی بینائی سے اس نوجوان کی آنکھوں کا کیا تعلق؟ کشمیر میں مظالم ہو رہے ہیں ساری دنیا جانتی ہیمگر اس نوجوان کی شہرت کو کشمیریوں کی جدوجہد سے کیا تعلق؟ اس دوران ہندوستان کے ایک مشہور انگریزی روزنامے کی شہہ سرخی میری نظروں سے گذری۔ اخبار نے پاکستانی وجیہ الصورت نوجوان کو نیا ایٹم بم قرار دیا، بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین بھی تعداد میں اس کی تعریفوں میں مصروف و مگن نظر آئے۔جی ہاں اس نوجوان کو اتنا زیادہ شئیر کیا گیا کہ کشمیر کے معصوم بچے جن کی آنکھیں ضائع ہوگئیں، جو دنیا کے رنگوں ، بہار کے موسموں ، چنار کے پتوں کے نظاروں سے محروم ہوگئے۔ انہیں ہم نے بھلا دیا۔ جی ہاں نیلی آنکھوں کی چمک نے جلتے چناروں کے سائے میں پیلٹ گن کا نشانہ بننے والے آنکھوں کے سپنوں کو دھندلا دیا۔کشمیری نوجوانوں کی ایک سو ایام پر مشتمل جد وجہد انسٹا گرام پر کی گئی ایک پوسٹ نے تاریک راہوں میں دھکیل دی۔
Arshad Khan Chaiwala
ون پاؤنڈ فش کے ذریعے پاکستانی میڈیا پر شہرت حاصل کرنے والا لاہور میں آج نوکری کی خاطر دفاتر کے چکر لگا لگا کے مایوس ہو چکا ہے۔ کیا یہی حال اس نوجوان کا ہونے جا رہا ہے جو اپنی تصویر وائرل ہونے سے قبل پانچ سو یومیہ رزق حلال کما رہا تھا؟ خیر میرا اختلاف اس نوجوان سے قطعا نہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے۔ رات و رات امیر بننے کے سپنے دیکھنے والے اب راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پرواز کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔لیکن ایک سوال میرے ذہن میں کھٹک رہا ہے کہ کیا بھارتی میڈیا نے کشمیر میں اپنی جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے پاکستانی نوجوان کو مشہور کیا اور ساری پاکستانی قوم کی ترجیحات بدل کر رکھ دیں۔ پاکستانی نوجوان مر د و خواتین اپنے ملک کی تعریف سمجھ کر دھڑا دھڑ اپنے مواعظ حسنہ سے نوازتے ہوئے تصویر شئیر کرتے رہے۔
اس ساری مہم کے دوران نقصان ہوا تو ان معصوم آنکھوں کو جن کو رستہ دکھانے کے لئے ہم نے اپنے دست و بازو پیش کئے تھے، جن کے لئے دنیا کی خوبصورتی اور رنگینی پاکستان کی صورت دکھائی دے رہے تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار پھر مظلوم کشمیریوں کی آواز بن جائیں اور حوالے سے پوری دنیا کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنے کی اپنی مہم ایک بار پھر شروع کریں۔گلیمر اور افسانوی دنیا کی تاریکیوں میں جانے کی بجائے حقیقی دنیا کا سامنا کریں۔نان ایشوز پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کی بجائے ملک کی سالمیت اور وقار کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ جب یہ تحریر تکمیل کے مراحل میں تھی تو مقبوضہ کشمیر سے میری کزن مصباح کا فیس بک پر پیغام موصول ہوا۔جو کہ مشہور نظم کا ایک حصہ تھا۔
“میری آنکھیں خریدو گے سنو لوگو! بڑی محبوب ہیں مجھ کو میری یہ نیم تر آنکھیں مگر اب بیچتا ہوں کہ مجھے ایک خواب کا تاوان بھرنا ہے۔”
اس پیغام کے بعد میں یہ بات سوچ رہا ہوں کہ آخر کب تک کشمیری اپنے خوابوں کا تاوان بھرتے رہیں گے۔ کب تک پیلٹ گنیں ان سے ان کی آنکھیں چھینتی رہیں گے۔ کب تک ہم ان کی آہوں، سسکیوں اور آنکھوں سے بہتے موتیوں کو نظر انداز کرتے رہیں گے؟ کب تک ایسا چلتا رہے گا۔ کب تک خون سے تر آنکھوں کو نظر انداز کرکے ہم نیلی آنکھوں کے حصار میں قید رہیں گے؟