تحریر : رشید احمد نعیم قوموں کا عروج ترقی کا مر ہو نِ منت ہے۔جو قو م علمی سفر میں پیش پیش ہو اسے نہ صرف عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔بلکہ اس قوم کی عظمت کا ڈ نکا بجتا ہے ہر طرف اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔علم ایسا نور ہے جس سے جہا لت کی تا ریکیا ں کا فور ہو تی ہیں اور ہر سُو روشنی پھیلتی ہے یہ ایسی قوت ہے جس سے تسخیرِ کا ئنات کا سبق ملتاہے ۔یہ ایسی لا زوال دولت ہے جس سے انسان عزت و وقار اور عظمت وسیاد ت کے مقامِ رفیع پر فائز ہوتا ہے۔ دنیاوی چہل پہل ،آرائش و زیبائش اور ما دی ترقی علم کا ہی کر شمہ ہے ۔ اگر انسان مادی خسارے کا شکار ہو جا ئے ۔اس سے ما ل و متاع چھن جا ئے ۔ کوئی آفت یا حا دثہ ا س کی مملوکہ اشیا کو نیست و نا بود کر دے تو اس کی تلا فی ممکن ہے ۔بشر طیہ کہ علم کا سرمایا اس کے پا س ہو،لیکن اگر وہ علم سے تہی دا من ہو تو نہ صرف اس کے لیے نقصان کا ادراک نا ممکن ہے بلکہ معا شرے میں عزت کی زندگی بسر کر نا اور بلند مقام حا صل کر نا بھی محال ہے
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے پہلی وحی میں فر ائض کی طرف نہیں بلکہ قرأت اور حصولِ علم کی طر ف متوجہ کیا ۔پھر قلم کی قسم اٹھا کرعلم کی اہمیت کو مزید واضح کر دیا ۔جب رسول ۖنے پیغمبرانہ لہجے میں فر مایا علم میرا ہتھیار ہے تو اس صدا سے جہا لت کے ایوانوں میں کہرام مچ گیا علمی ہتھیار کے استعما ل کا یہ اعلا ن عالمِ انسانیت کی شبِ دیجور کو سحر آ شنا کرنے کا اعلا ن تھا۔کیوں کہ انسان اگر علمی ہتھیار سے مسلح نہ ہو تو وہ میدان حیات میں اوہام و خرا فات کے دبیز پر دوں میں چھپ جاتا ہے ۔اور اگر اس کے ہاتھ میں علم کی روشن شمع ہو تو وہ جہا لت کی شب ِدیجور کا ٹتاہو ا تسخیرِ مظا ہر فطرت کا سفر کر نے لگتا ہے۔یہی علمی برتری تھی جس نے انسان کو آغاز پر ہی مسجو دِملا ئک کے ارفع و اعلی مقام پر متمکن کر دیا۔
قرآن و حدیث اور اقوالِ سلف میںجا بجا علم کی اہمیت کو اجا گر کیا گیاہے مگر افسوس کہ وطن ِ عزیزمیںسب سے زیادہ جسے پس ِ پشت ڈالا جاتا ہے وہ ہے حصول ِعلم۔تعلیم کے ساتھ بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔سہولیات کے فقدان کے باعث والدین اپنی اولاد کو زیور ِ تعلیم سے آراستہ کرنے سے قاصر ہیں۔اس سلسلے میں تلہ گنگ سے محترمہ کومل سعیدکا ایک مراسلہ موصول ہوا ہے جو من عن آپ کی خدمت میں پیش ہے۔پڑھیے۔حکومت کی متضاد پالیسی کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی۔
Matric Result
”گزشتہ دنوں ہونہار طالبہ نرگس گل کی میٹرک میں شاندار کارکردگی کومیڈیا میں خوب پذیرائی ملی اور اخبارات اس کی سر خیوں سے بھر گئے اسی کاوش کے نتیجے میں اس کی شا ندار کا میا بی کی باز گشت ایوان اقتدار تک جا پہنچی۔ وزیر اعلی شہباز شر یف نے اس کی قابلیت کو سراہا اسے نقد انعام ،گھراور قیمتی انعامات کے علاوہ حصول علم کے لئے تمام اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری اٹھائی لی۔اس سلسلے میں باقی سیا سی رہنما ئوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا جس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنے ایک مراسلے میں کیا تھا کہ نر گس گل کو ملنے والے پروٹوکول کے ذکر کے ساتھ تمام سیا سی رہنما ئوں وزیروں مشیروں ،ایم این ایز،ایم پی ایز ،این جی اوز سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ تحصیل تلہ گنگ میں بہت سے نو جوان بچے بچیاں مو جود ہیں جو ذہین وفطین ہو نے کے با و جود حا لا ت کے ہا تھو ں مجبور ہیں غربت اور گردش ِ ایام ان کا راستہ روکے ہو ئے ہیں۔
لہذا یہ بھی اس پروٹوکول کے مستحق ہیں جو نر گس گل کو ملا ،یہ سب بھی امداد کے منتظر ہیں اور کسی ایسے مسیحا کی تلا ش میں ہیں جو ان کو آ گے بڑ ھنے میں معاونت کر سکے ۔ ایسے ہی مستحق لو گوں میں ایک نو جوان محمد قا سم بھی شامل ہے جو ملتان خورد کا رہا ئشی ہے اورحالیہ میٹرک کے رزلٹ میں 1011 نمبر حاصل کر کے تحصیل تلہ گنگ میں پہلی پو زیشن لے کر پوری تحصیل تلہ گنگ کا نام روشن کیا ہے۔محمد قا سم ٹا نگوں میں پیدائشی کمزوری کے باعث چلنے پھر نے سے معذور ہے اور و ہیل چئیر کا محتاج ہے سکول آ نے جا نے کیلئے بھی اسے وہیل چئیر خود ہی د ھکیلنی پڑ تی تھی مگر اس نے ہمت اور حوصلے سے آ نے والی ہر مشکل کا سا منا کیا اور اپنی معذوری کو خاطر میں نہ لا تے ہو ئے تعلیم کو اپنا مشن بنایا اور بہتر مستقبل کے خواب آ نکھوں میں سجا ئے ہیں۔
میٹرک کے امتحانا ت میں وہ اول پو زیشن بھی حاصل کر سکتا تھا مگر اس کی بیماری اس میں آڑ بنی کیو نکہ اس کے پٹھوں میں پیدائشی کمزوری ہے جس کی و جہ سے وہ لکھنے میں دقت محسوس کر تا ہے اور امتحان میں وہ مقررہ وقت تک پورا پر چہ حل نہیں کر پا تا تھا جسکی و جہ سے وہ اول پوزیشن سے محروم رہا ۔تا ہم اس کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ قا سم اپنی کلاس میں ہو نے والے تمام امتحانا ت میں 100 میں سے 100 نمبر لینے والا واحد طا لب علم تھا۔رٹ کیا جا ئے تو وہ بہت آ گے جا سکتا ہے ۔اسی خیال سے میں نے اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا۔
Muhammad Qasam
قا سم سے بات کر کے ذرا بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ جسما نی معذوری کا شکار ہے اس نے کہا کہ اللہ پا ک نے اگر جسما نی معذوری دی تو ذہنی طویہ تمام معلو مات یہ بتا رہی ہیں کہ محمد قا سم ساکن ملتان خورد بھی پا کستان کا ہو نہار بیٹا ،تحصیل تلہ گنگ کا فخر ہے اور نر گس گل کی طرح ایک ایسا ہیرا ہے جس کو تعلیم کے میدان میں سپور پہ مجھے بھر پور صلا حیتوں سے نوازاہے اس لئے مجھے اپنی معذوری کا کو ئی د کھ نہیں ،جب میں نے نر گس گل کا ذکر کیا تو کہنے لگا کہ میں غریب با پ کا بیٹا ہوں اور وہ بھی معذور ہوں مجھے آج تک میرے علاقے کے کسی بڑے فرد کسی چئیر مین نے نہیں پو چھا اور اب کو ن پو چھے گا۔
نرگس گل کی کا میا بی پہ اسے ملنے والے انعا ما ت سے میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ ہمارے ملک میں ہو نہار طلبا ء طالبا ت کی یہ حوصلہ افزائی بہت خوش کن امر ہے مگر میری طرف کسی نے کو ئی تو جہ نہیں دی کسی سیا سی رہنما ء نے نہیں پو چھا جس سے میرا دل ما یو سی کا شکار ہے کہ شا ہد میرا بھی دل کر تا ہے کہ میں لیپ ٹاپ پہ گھر بیٹھے تعلیمی عمل میں معاونت لے سکوں ،مگرمیرے اتنے وسائل نہیں اگر حکو مت میری بھی مدد کر ے میری حوصلہ افزائی کر ے تو میں بھی بہت آگے جا سکتا ہوں۔
پھر ہماری اس کے والد سے با ت ہو ئی تو انہوں نے تفصیل بتا ئی کہ ان کے دو بیٹے (محمد قا سم اور اس کا بڑا بھا ئی) ان کی ایک بہن اور دو بھا ئی (محمد قا سم کی پھو پھو اور دو چچا )بھی اس معذور ی کا شکار ہیں اور ان کی د یکھ بھال بھی میں کر تا ہو ں ۔ کھیتی باڑی سے ہمارا گزارہ ہو تا ہے ۔بڑھاپے اور گھر میں ان معذورافراد نے میری قوت کو شل کر دیا ہے مگر میرے بیٹے کی کا میا بی نے میرے ٹو ٹتے حوصلوں کو نئی ز ند گی اور روشن امید کی نو ید دی ہے۔
Resources
لیکن مجھے افسوس ہے کہ میرے ہو نہار بیٹے کی حو صلہ افزائی نہیں کی گئی ہمارے علا قے کے چئیر مین خا لی مبارک باد بھی نہیں دے سکے جو ہمارے لئے حوصلہ شکن بات ہے کیو نکہ اگر نر گس گل پا کستان کی بیٹی ہے تو محمد قا سم بھی پا کستان کا بیٹا ہے میرے اتنے وسائل نہیں کہ مز ید تعلیم کے اخراجا ت برداشت کر سکوں لہذا اگر حکو مت اس سلسلے میں میر ے بیٹے کی مدد کر ے تو یقیناً میرا بیٹا بھی نر گس گل کی طرح تعلیمی میدان میں کارہا ئے نمایاں سر انجام دے سکتا ہے ۔یہ کہا نی ہے محمد قا سم کی جس نے میٹرک میں سا ئنس مضا مین میں شا ندار نمبر حاصل کر کے اپنے آپ کو منوایا ہے ۔مگر اب اسے ضرورت ہے ما لی امداد کی ،یہ بھی مستحق ہے انعامات کا ،حوصلوں کی بو چھاڑ کا۔
وزیر اعلی پنجا ب میاں شہباز شر یف ،ڈی سی او چکوال ،ایم این اے ،ایم پی اے ،وزیر اعلی کے معاون مشیر،چئیر مینوں ،این جی اوز ،اعلی عہدے داروں کیلئے قاسم کی آ نکھیں منتظر ہیں یہ بھی اپنے حق کا حق دار ہے۔ نر گس گل کی کا میا بی پہ ہر ایک کے لبوں پہ ایک ہی بیان تھا کہ تعلیم کے میدان میں ہر مستحق بچے کی ما لی معاونت کی جا ئے گی ،کیو نکہ یہ بچے ہی ہمارا کل سرما یہ ہیں ۔محمد قا سم حق دار ہے اور ما لی معاونت کا مستحق بھی ،آ گے بڑ ھیں اور اس کی بھی حوصلہ افزائی کر یں تا کہ اس کومزید تقویت ملے۔
اس کی معذوری میں اس کا بہترین علاج کروایا جا ئے اسے مالی سپورٹ کیا جا ئے تا کہ یہ گو ہر نا یا ب آ گے بڑ ھ کر بجا ئے خود معاشرے پہ بو جھ بننے کے اس معاشرے کا بو جھ خود اپنے کند ھوں پہ اٹھا سکے اس کے ارادے بہت مضبوط اور بلند ہیں ان کو ٹو ٹنے نہ دیں آ ئیں سب مل کے اس کو سہارا دیں اس کی حوصلہ افزائی کر یں کہ یہ اس کا حق ہے ۔’کیا قاسم کی منتظر آنکھیں کسی مسیحا کو دیکھ پائیں گی؟؟؟کیا کوئی قاسم کی جلتی بجھتی آنکھوں کو جلا دے پائے گا ؟؟؟ حکومت ِ وقت کے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔