تحرير: وقارانساء آنسو جھر جھر حسینہ بیگم کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے اور دل پر خزاں کی سی اداسی طاری تھی – ان کا تیرہ سالہ پوتا طیب پریشان ہو کر ان کے آنسو کا سبب پوچھ رہا تھا – آج تو یوم آزادی ہے – خوشی کا دن ہے آپ کیوں رو رہی ہیں؟۔ انہوں نے اس کو بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بضد تھا دیکھو بیٹے آج میری نظر سے ایک خبر گزری جس نے مجھے پریشان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی يوم آزادی کچھ تکلیف دہ یادیں ہيں – جو دل اداس کر رہی ہیں – مگر آپ نہیں سمجھ پاؤ گے۔
آپ بتائيں تو ميں سب سمجھ سکتا ہوں دادو ميں تو سمجھ سکتی ہوں ناں ميں تو بڑی ہوں انيس سالہ جوان پوتی ماہ رخ بھی آموجود ہوئی- کيا پڑھا تھا آپ نے مجھے بتائيے ماہ رخ تجسس سے بولی ہندوستان ميں گائے کے ذبح کرنے پر ان مسلمانوں کو گوبر کھانے پر مجبور کيا گيا جس سے ان مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہوئی- حسينہ بيگم نے بتايا وہ کيوں؟ طيب نے کراہيت محسوس کرتے ہوئے اپنی ابکائی روکی ہندوستان ميں گائے کو ماتا کہا جاتا ہے يعنی ماں –اس لئے اسے جرم سمجھا جاتا ہے يہ تو بہت ظلم ہے ماہ رخ نے کہا آپ نے پہلے بھی بتايا تھا کہ برصغير ميں ہندو مسلمانوں سے ناروا سلوک کرتے تھے – يہی تو قيام پاکستان کی وجہ تھی – مسلمانوں کو اعلی ملازمتيں نہيں ملتی تھيں – امتيازی سلوک کيا جاتا تھا۔
مذہبی آزادی نہيں تھی انہوں نے بچوں کو بتايا – اسی لئے تو قائد اعظم کی انتھک کوششوں نے الگ وطن ديا – جہاں ھميں مکمل مذہبی آزادی ہے ھمارا اپنا ملک ھماری پہچان !! يہ کام آسان تو نہ تھا قائد اعظم کے شانہ بشانہ ان کے ساتھی اور تحريک آزادی کے رہنما رہے -تب اس کا قيام عمل ميں آيا – ملک تو بن گيا الگ تشخص بھی ملا مگر—– آج اس ملک ميں کيا ہو رہا ہے ! کہيں غربت اور مہنگائی لوگوں کو مار رہی ہے تو کہيں دہشتگردی –دن دھاڑے دندناتے ہوئے مجرم گاجر مولی کی طرح انسانوں کو کاٹ رہے ہيں-مگر وہ پکڑے نہيں جاتے قانون اندھا اور بہرہ ہو گيا ہے حکمران اور عوام بے حس – انسانی جان کی کوئی حيثيت نہيں – ماؤں سے بچے جدا ہو رہے ہيں بہنوں بيٹيوں کے سہاگ اور بوڑھے ماں باپ سے ان کے سہارے چھن رہے ہيں کوئٹہ کے سانحہ نے پھر آنکھوں کو برسات دے دی ہے۔
Pakistan Movement
يہ تو روز ہی خبروں ميں ديکھتے ہيں اور کئی واقعات خود بھی ديکھے ہيں – ماہ رخ نے کہا مگر آپ نے کہا تھا کہ آج آپ ھميں اپنی کہانی سنانے والی ہيں – ہاں ميرے بچو ضرور سناؤں گی – کيوںکہ آج پاکستان کے حالات ان واقعات کو تازہ کرتے ہيں – اور سلے ہوئے زخموں کے منہ پھر کھل رہے ہيں-تب کرنے والے ہندو تھے آج تو کرنے والے خود مسلمان ہيں!! جب برصغير تقسيم ہوا – تو بہت فسادات ہوئے لوگوں کے بچے بچھڑ گئے بہنوں بيٹيوں کی عصمتيں پامال ہوئيں نوجوانوں کے خون بہے بچوں بوڑھوں اور جوانوں سب نے اپنی جان کے نذرانے دئيے آج اس ملک ميں خود مسلمان ايک دوسرے کا خون بہا رہے ہيں ماؤں بہنوں بيٹيوں کی عزتيں محفوظ نہيں -چھوٹی معصوم بچيوں کو ہوس کی بھينٹ چڑھايا جاتا ہے – کل اگر غير مسلم ان زيادتيوں کے مرتکب ہوئے تو آج خونی رشتوں کے اندر درندگی در آئی ہے اور غليظ اور ناپاک نظريں اپنی ہی بہنوں بيٹيوں کے جسم کا طواف کرنے لگی ہيں –نہ ہی گھر سے باہر کوئی محفوظ ہے اور نہ ہی گھر کے اندر کہاں لے جائيں مائيں اپنی بيٹيوں کو درندوں سے بچا کر؟ کہاں محفوظ ہوں گی وہ ؟۔
جب يہ ملک بنا تو ميں نو دس سال کی تھی-لوگ اپنے گھر مال اسباب سب چھوڑ کر اپنے پاکستان آنا چا ہتے تھے سب کی ايک ہی تمنا تھی کہ سرحد پار کر کے اس سر زمين پر قدم رکھيں اس کے علاوہ انہيں کچھ نہيں چاہيے تھا – ليکن اس چاہ ميں کيا کچھ لٹا ديا – حسينہ بيگم کے منہ سے آہ ايک سسکی بن کر ابھری آپ نے بھی ؟ ماہ رخ نے سوال کيا ميں نے بھی بہت کچھ لٹايا- آپ کيسے پہنچيں پاکستان ؟ ماہ رخ نے بيقراری سے پوچھا – ھمارے بيشتر رشتہ دار مارے گئے تھے – جوان لڑکيوں کو پکڑ کر لے جا رہے تھے اور نوجوان لڑکوں کو اور مردوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے –سب چھپتے چھپاتے اس حد تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے جہاں سے مسلمان رضا کار مرد اور لڑکے اپنی جانوں پر کھيل کر انہيں ٹرين ميں سوار کروا سکيں – ھم سب ايک ساتھ گھر سے نکلے تھے-ليکن ميرے ماموں چچا اور سب نو جوانوں نے ھميں ھمارے نانا اور اماں ابا کے ساتھ دو گروپوں ميں کر ديا جو خواتين اور بچيوں کے ساتھ رہيں۔
اور وہ خود حفاظت کر رہے تھے کہ کوئی ھم تک پہنچنے کی کوشش کرے تو وہ اس کو روکيں حسينہ بيگم کی آواز رندھ گئی بچے دم سادھے ان کی باتيں سن رہے تھے –انہوں نے دادی کی طرف سواليہ نظروں سے ديکھا جيسے پوچھنا چاہتے ہوں آگے کيا ہوا – حسينہ بيگم نے ساتھ ميز پر رکھے جگ سے پانی انڈيلا اور غٹا غٹ پی گئيں – دوبارہ ايک ٹھنڈی آہ بھری اور گويا ہوئيں ھم بخيريت ٹرين تک پہنچ گئے ليکن ھمارے ابا کے ھمراہ آنے والا گروپ انتہا پسند ہندوؤں نے پکڑ ليا – اس ميں ميری پندرہ سال کی نوجوان بہن تھی – ميرے ابا بہت بيمار رہتے تھے اسی لئے لاغر تھے – انہوں نے بيٹی کو چھڑانے کی کوشش کی اور ان کی طرف لپکے ابا کی آواز گونجی جو ميرے نانا سے کہہ رہے تھے خدا را ميری بيوی اور بچوں کو بحفاظت پاکستان پہنچا ديں – آپ ٹرين سے ہرگز نہ اتريں اور ميری فکر مت کرنا- بچ گيا تو آن ملوں گا وہاں موجود دوسرے مسلمان بھائی بھی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے ہتھے چڑھی اپنی جوان بچيوں کو بچا سکيں – فضا ميں ان عورتوں اور بچيوں کی چيخيں اور التجائيں تھيں کہ ان کو چھوڑ ديں ايک ہندو نے بندوق کا بٹ ميرے ابا کو مارا اور وہ نيچے گر گئے کئی اور رضا کار بھائی بھی وہاں موت کا شکار ہو گئے يہ اندوناک منظر ھمارے سامنے تھا۔
Pakistan Movement
پانی کا ايک اور گلاس پينے کے بعد کچھ توقف کيا اپنی ہمت مجتمع کی اور بوليں بچا لو مجھے اماں ! بچا لو ميری بہن کی دلخراش آواز جيسے سينہ چير رہی تھی – ايک ہندو نے اتنا زور سے تھپڑ اس کے منہ پر مارا کہ اس کے منہ سے خون آنے لگا اس کے بال کھل گئے تھے ميری ماں خود پر قابو نہ رکھ سکی اور ميرے نانا کے لاکھ روکنے پر ٹرين سے اتر گئی سب نے روکا ميں جوان بچی ان کے ساتھ جاتی نہيں ديکھ سکتی آپ چلے جائيں ميری بيٹی کے بچنے کی اميد نہيں ميں بھی اس کے ساتھ مروں گی – اس کو چھوڑ کر پاکستان نہيں جاؤں گی ميری ماں کو ديوانہ وار لپکتے ديکھ کرايک ہندو نے چوٹی سے پکڑ ليا – اور بولا چل تو بھی ساتھ چل – سارے کس بل نکال ديں گے-ايک زور دار دھکے سے اماں زميں پر آرہی – دوباہ شيرنی بن کر اٹھی اور بيٹی کی طرف بھاگی مسلمان رضاکاروں ميں ميرے ماموں بھی تھے جنہوں نے بہت سی بيٹياں اور بہنيں بچا ليں ليکن اپنی بہن بھانجی نہ بچا سکے۔
اماں تمہيں خدا اور اس کے رسول کا واسطہ مجھے مار دو مگر ان کے ساتھ نہ جانے دينا – قدرت کو منظور ہو تو کچھ انہونی بھی ہو جاتی ہے – ميری ماں نے نجانے کيسے ھاتھ چھڑايا ؟ يقينا اللہ نے مدد کی ايک ماں کی اور پاس پڑا ايک پتھر اٹھا کر دے مارا اورجو شخص نے ميری بہن کو گھسٹتا لے کر جارہا تھااس کے سر کے پيچھے زور سے لگا اس کے گرتے ہی اس کی بندوق سے پلک چھپکتے فائر بيٹی پر داغ ديا ايک ماں کے لئے اپنے ھاتھوں بيٹی کو مارنا آسان نہيں تھا ميری ماں پر گھونسوں اور مکوں کی بارش ہو رہی تھی ليکن وہ بيٹی کے قريب تھی – اس دوران ايک گولی ميری ماں کے سينے ميں لگی اور وہ گر گئی کسی ظالم نے اور کئی گولياں دونوں کے سينے ميں اتار ديں مر جائيں گی سالياں ايک بولا –باقيوں کو لے کر چلو اور ان کو خون ميں لت پت چھوڑ کر وہ آگے بڑھے – ماں نے بيٹی کی ڈوبتی سانسوں کے ساتھ اپنی ڈوبتی سانسيں ملا ديں- سينے سے لگايا اور ميری بہن نے کہا شکريہ اماں تو نے مجھے بچا ليا ماں نے خون ميں لتھڑی بچی کو گود ميں رکھا اور کہا۔
ميں تجھے کيسے جانے ديتی ان کے ساتھ حسينہ بيگم کے ساتھ ماہ رخ اور طيب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے- کيا پھر آپ کی اماں اور بہن دونوں مر گئيں؟ طيب پوچھ رہا تھا آپ کو کس نے بتا کہ وہ مر گئيں ؟ہو سکتا ہے وہ صرف زخمی ہوئی ہوں – ماہ رخ بولی ميرے ماموں ادھر ہی تھے اور بہت سی بچياں اور خواتين کو دوسرے ساتھيوں کے ساتھ بچا رہے تھے انہوں نے سب ديکھا اور سنا – مگر اس وقت جن کو بچا سکتے تھے بچا رہے تھے دشمن سے لڑ رہے تھے انہيں سب اپنی بہنيں اور بھانجياں ہی لگ رہی تھيں وہ فرق محسوس نہيں کر رہے تھے اور وہ خود زخمی حالت ميں بچ بھی نکلے – اور لاہور ہم سے آملے کتنی پريشانياں اور تکليفيں اٹھائيں مسلمانوں نے ! ماہ رخ نے دادی کے آنسو پونچھے سب ہی لٹ پٹ کر پہنچ رہے تھے کسی کے بچے نہيں تھے اور کوئی بچے ماں باپ کے بغير تھے – بعد ميں آنے والوں ميں کبھی کسی کا کوئی رشتہ دار مل جاتا تو اس کو اس کے حوالے کر ديتے – پھر آپ کراچی کب آئيں ؟ بچوں نے پوچھا۔
Pakistan Movement Lahore
ايک مدت ہم لاہور رہے نانا نے پالا ميں اور ميرے دوبھائی جو مجھ سے چھوٹے تھے- ايک اس وقت ھمارے ساتھ تھا اور ايک بعد ميں ملا تھا – ماموں کا اچھا خاصا کاروبار کراچی ميں ہو گيا ميری شادی يہاں ہو گئی اور نانا فوت ہو گئے – بھائی بھی يہاں آگئے تھے – حسينہ بيگم نے پھر پانی کا گلاس اٹھايا جيسے سلگتی يادوں کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہوں اپنی رندھی ہوئی آواز کو بحال کيا ميری اس جان نے نجانے اور کيا کيا ديکھنا ہے ؟ انہوں نے اپنے آنسو پونچھے- آج اس ملک ميں جہاں آکر ھم نے سکھ کا سانس ليا تھا اور تلخ يادوں کو تھپک کر کہيں سلا ديا تھا ابتر حالات پر ان زخموں کے کھرنڈ اتار رہے ہيں اس شہر کراچی نے ميرے کئی اور رشتے بھی نگل لئے ہر وقت کے فسادات گولياں دہشتگردی بم دھماکوں نے چين سے رہنے نہ ديا – ميرے دو ماموں زاد بھا ئی گولياں کا شکار ہو گئے ميرا بھائی شاپنگ مال ميں آگ کی نظر ہو گيا۔
ميں اس شہر سے جانا چاہتی تھی ليکن آپ کے دادا ابو نہيں مانتے تھے – ميرے پاس اولاد کی نعمت تھی کاروبار اچھا تھا گھر تھا آپ کے دونوں بڑے تايا کراچی سے ايک دوبئی اور دوسرا آسٹريليا چلا گيا تھا آپ کے دادا جان کی وفات کے بعد ميں آپ کے پا پا يعنی اپنے چھوٹے بيٹے ساتھ ہوں آپکی ايک پھوپھی شادی لاہور کر دی اوروہ لاھور چلی گئی اور آسيہ پھو پھو تو آپ کے ساتھ اور پاپا کے ساتھ کراچی ہی رہی ناں انسان نے جو تکليف اٹھانی ہے جگہ تبديل کرنے سے ختم نہيں ہوتی –تب ہی تو آپ کے تايا پاکستان آکر ايک خود کش دھماکے ميں مارے گئے ميں کب تک زندہ ہوں اور کيا ديکھنا باقی ہے ابھی آج پاکستان ميں جہاں دھماکے اور دہشتگردی ہوتی ہے دل بہت پريشان ہوتا ہے۔
Azadi
آج يوم آزادی ہے ايک ايک کر کے ساری زندگی کے مناظر کسی فلم کی طرح ميری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہيں – بہت دکھ آئے زندگی ميں – اس جندڑی نے سب جھيلا جب ديکھتی ہوں کہ مسلمان وحشی درندے بن گئے ہيں-تو دل خون کے آنسو روتا ہے – يہ ملک اس لئے تو حاصل نہيں کيا گيا تھا ؟ اس ملک نے آزادی دی خود مختار رياست کی پہچان دی ہے – سبز ہلالی پرچم ھمارا فخر ہے – شکريہ پاکستان مہم بھی جاری ہے کاش يہ سب حکمرانوں کو سمجھ آ جائے –اور ان کے سميت ھم سب اس بات کو سمجھ کر اس ملک اور اس کے حالات بہتر کرنے ميں اپنا کردار ادا کريں۔