آنکھیں اُٹھا کہ قافلہ سالار ہم ہوئے اقرارِ خاص و عام میں انکار ہم ہوئے ظلم و جبر سے برسرِ پیکار ہم ہوئے ہم کو بتا اے شہر کے فرماں روا ذرا کس وقت تیرے حاشیہ بردار ہم ہوئے ہونٹوں پہ انقلاب کے نغمے لئے ہوئے مقتل کدوں میں جراتِ اظہار ہم ہوئے جب بھی کبھی سوال پہ قدغن روا ہوئی علم و شعور و فکر کے اخبار ہم ہوئے دیکھا ہے اپنی آنکھ سے ہر عکسِ زندگی دنیا میں ایسے صاحبِ کردار ہم ہوئے حرف و نصابِ آگہی کا درد بانٹتے سیلِ جہل کی راہ میں دیوار ہم ہوئے اے رہنما کے روپ میں اِک رہزنِ حیات آنکھیں اُٹھا کہ قافلہ سالار ہم ہوئے