حیات اک نظم ہوتی تو میں اسکو خوبصورت استعاروں سے سجا لیتی قزح کے سات رنگوں کو میں لمحوں میں پرو دیتی کہیں پر شام کا منظر طلوع ِ صبح کی لالی فلک سے کہکشاں لا کر زمیں سے تتلیاں لے کر چمن کے پھول سارے ،،آسماں کے چاند تارے سب میں لفظوں میں مقید کر کے شعروں میں چھپا لیتی میں ایسا کر نہی سکتی کہ ایسا ہو نہی سکتا حقیقت تلخ یہ ھے کہ یہاں پر بھوک ہے افلاس ہے ،غربت کے نوحے ہیں بدن زخمو ں سے گھائل ہیں کہیں رخ پہ غریبی کے طمانچے ہی طمانچے ہیں بلکتے بھوک سے بچے لباس اور گھر کو جب ترسیں سڑک پر بے اماں جیون پناہوں کو ترستا ہے یہ دنیا ایسی بستی ہے جہاں پرموت سستی ہے مقدر لکھنے والا گر قلم اک پل کو دے دیتا میں ان بچو ں کی آنکھوں میں ستارے قید کر دیتی نحیف و ناتواں بوڑھوں کو اپنے گھر کی چھت دیتی میری بیٹی کے ہاتھوں پر حسیں رنگ حنا ہوتا میں انکو دیکھ کر خوشبو بھری نظمیں کہا کرتی مگر افسوس یہ ہے کہ میں ایسا کر نہی سکتی مرا دل خون روتا ہے مری آنکھوں میں پانی ہے خدایا کیوں میرے لوگوں کی ایسی زندگانی ہے