آٹھ ایف 16 طیارے فروخت کرنے کی قرارداد مسترد

United States Senate

United States Senate

تحریر: محمد اشفاق راجا
حکومت پاکستان کی خاموش ڈپلومیسی، مضبوط اور کامیاب خارجہ پالیسی کے باعث امریکی سینیٹ میں پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے فروخت کرنے کی قرارداد مسترد کر دی گئی، یہ قرارداد ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر رینڈپال نے پیش کی تھی، قرارداد کے حق میں 24، جبکہ مخالفت میں 71 ووٹ ڈالے گئے۔ سینیٹ میں اگرچہ ری پبلکن کی اکثریت ہے اس کے باوجود قرارداد منظور نہ ہونا اس لحاظ سے امریکی صدر اور حکومت کی فتح ہے کہ ری پبلکن ارکان نے بھی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

امریکی انتظامیہ پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے فروخت کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ تاہم سینیٹر رینڈپال اور ان کے بعض ساتھی اب بھی یہ ڈیل منسوخ کرانے کے خواہاں تھے، انہوں نے اپنی قرارداد کی حمایت میں پاکستان کے خلاف ایک زبردست تقریر ضرور کی، لیکن وہ سینیٹ کے ساتھی ارکان کو قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ نہ کر سکے اور یوں یہ قرارداد بھاری اکثریت سے مسترد ہو گئی۔

صدر اوباما اور امریکی انتظامیہ اس معاملے پر یک سو ہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اِن طیاروں کی ضرورت ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا بھی اب امریکہ میں ہر جگہ اعتراف کیا جا رہا ہے تاہم سینیٹر رینڈپال جیسے ارکان بھی موجود ہیں جو پاکستان کی مخالفت میں ہر حد عبور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اس سے پہلے مختلف سطحوں پر پاکستان کو ایف16طیارے فروخت کرنے کی مخالفت ہوتی رہی ہے۔ تاہم جب امریکی انتظامیہ نے ہر جانب سے مخالفت کے باوجود اس سلسلے میں پاکستان کے موقف کو مبنی برحق مان لیا اور یہ حتمی فیصلہ کر لیا کہ پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے فروخت کئے جائیں گے تو بھارتی لابی ہر جگہ متحرک ہو گئی۔

F-16 Plane

F-16 Plane

نئی دہلی میں امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے باقاعدہ احتجاج کیاگیا۔ امریکہ میں بھی بھارتی لابی نے پوری کوشش کی کہ طیاروں کی فروخت کی یہ ڈیل رْک جائے، تمام ناکامیوں کے بعد غالباً یہ آخری حربہ تھا جو ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن ارکان نے مل کر ناکام بنا دیا ہے۔ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھارتی لابی ان تمام تر شکستوں کے باوجود اب شرمسار ہو کر خاموش ہو جائے گی یا اب بھی وہ اس وقت تک اپنی ناکام کوششیں جاری رکھے گی جب تک طیارے باقاعدہ پاکستان کے حوالے نہیں کر دیئے جاتے۔

بھارت کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ دْنیا بھر میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، ہر قسم کا اسلحہ جہاں سے بھی ملتا ہے، خریدنے کے لئے تیار رہتا ہے،ابھی جنوری میں فرانس سے 36رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا گیا ہے، لیکن بھارتی ائر فورس کے مورال کا یہ عالم ہے کہ وائس ائر چیف، ایئر وائس مارشل دھانوا نے ایک پریس کانفرنس کے دوران باقاعدہ اعتراف کیا ہے کہ ائر فورس بیک وقت پاکستان اور چین کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، ائر فورس کے پاس اتنے طیارے نہیں ہیں کہ دونوں ملکوں کا مقابلہ کر سکے اس وقت ائر فورس کے پاس33سکوارڈن ہیں، جبکہ 42ہونے چاہئیں، ایف16طیاروں نے زندگی اور مشکل بنا دی، رافیل کے علاوہ ایم ایم آر سی اے طیاروں کی بھی ضرورت ہے۔

پاکستان کو امریکہ سے آٹھ ایف16طیارے ملیں گے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال ہوں گے، کیونکہ بعض پہاڑی علاقے ایسے ہیں جو زمینی طور پر ناقابلِ رسائی نہیں جہاں دہشت گردوں نے اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں ان کو ٹارگٹ کرنے کے لئے جدید طیاروں کی ضرورت تھی جو پاکستان کو امریکہ سے بہت ہی محدود تعداد میں مل رہے ہیں، ابھی یہ طیارے ملے نہیں ہیں اور جیسے جیسے طیارے تیار ہوں گے ویسے ویسے قسطوں میں ڈلیور ہوں گے اور ممکن ہے اس میں کافی وقت بھی لگے۔ اب اگر بھارتی ائر فورس کی زندگی طیارے ملنے کی خبر سے ہی مشکل ہو گئی ہے تو اس کے مورال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔خبر رساں ادارہ بی این پی کے ریسرچ ڈیسک کے پاکستان اور بھارت کے تعلقات اگرچہ کشیدہ ہیں اور عرصے سے چلے آ رہے ہیں، لیکن کشیدگی دور کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہتی ہے۔

India

India

کشمیر کی کنٹرول لائن پر جھڑپیں اگرچہ کبھی کبھار ہو جاتی ہیں، لیکن اِن کا دائرہ پھیلنے سے روک دیا جاتا ہے، دونوں ملکوں میں ہمہ گیر جنگ کا امکان اِس لئے بھی نہیں کہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور جنگ چھیڑنے سے پہلے اس کے مضمرات کا پوری طرح ادراک ہونا چاہئے، معلوم نہیں بھارتی ائر فورس کے نائب سربراہ کو چین اور پاکستان کے ساتھ” بیک وقت جنگ” کی کیا پریشانی ہے۔ چین ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے ساتھ جنگ کا خیال کسی احمق کے ذہن میں ہی آ سکتا ہے۔ بھارت نے 1962ء میں چین کے ساتھ جنگ کا مزہ اچھی طرح چکھ لیا تھا اِس لئے دوبارہ ایسی حماقت نہیں کی،اب نصف صدی سے زیادہ عرصے میں چین فوجی اور اقتصادی قوت کے لحاظ سے ناقابلِ تصور کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔

ویسے بھی چین نے بطور پالیسی یہ طے کر رکھا ہے کہ اقتصادی میدان میں آگے بڑھنے کے لئے کسی جنگی تنازع میں نہیں اْلجھنا، چنانچہ چین نے اپنے علاقے واپس لینے کے لئے بھی کوئی جنگ نہیں چھیڑی۔ ہانگ کانگ چین کو معمول کے مطابق واپس مل گیا، اِس لئے چین کو بھارت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں، وہ سرحدی تنازعات بھی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے، یہاں تک کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کے معاہدے بھی ہوئے ہیں، ایسے میں بھارت چین سے کیوں خوفزدہ ہے اور محض پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیاروں کی وجہ سے اس کی نیند کیوں حرام ہو گئی ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات درست کرے، اور تمام تنازعات طے کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے، پاکستان بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے اور جامع مذاکرات کے آغاز کا خواہاں، اگر دونوں مْلک معمول کے تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو پھر بھارت کو اسلحے کے انبار لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی، نہ ایف16 طیارے اس کی زندگی مشکل بنائیں گے، جنگی طیاروں پر جو اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں وہ اگر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں تو خطہ خوش حال ہو سکتا ہے اور بھارت میں جو لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر زندگیاں گزارتے ہیں اْنہیں بھی چھوٹی موٹی چھت میسر ہو سکتی ہے۔

بھارت اگر جنگی جنون کی موجودہ روش پر گامزن ہو گا تو یہ عوام کے ساتھ ظلم ہو گا، چین سے مقابلے کا خواب پھر بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔میاں نواز شریف کی حکومت نے خاموش ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ جس کے ثمرات امریکی سینیٹ میں پاکستان کو آٹھ ایف16طیارے فروخت کرنے کی قرارداد مسترد کی صورت میں سامنے آگئے ہیں۔امریکی سینٹ میںپاکستان کے حق میں71 ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ جبکہ مخالفت میں صرف24 ووٹ ڈالے گئے ہیں۔پاکستان مخالف قرارداد کا بھاری اکثریت سے مسترد ہونا ، پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔

Mohammad Ashfaq Raja

Mohammad Ashfaq Raja

تحریر: محمد اشفاق راجا