اسلام آباد (جیوڈیسک) امریکا یہ جاننے کی کوشش میں ہے کہ آیا پاکستانی فضائیہ نے بھارتی جنگی طیارہ گرانے کے لیے امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے کا استعمال تو نہیں کیا۔ یہ بات اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے نے بتائی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستان میں قائم امریکی سفارت خانے کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن حکومت یہ ’معلومات حاصل‘ کرنے کی کوشش میں ہے کہ پاکستانی ایئر فورس نے بھارتی جنگی طیارہ گرانے کی خاطر کون سے جنگی طیارے استعمال کیے تھے۔
اگر پاکستان نے اس مقصد کی خاطر امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے استعمال کیے ہیں تو خدشہ ہے کہ یہ امریکا اور پاکستان کے مابین ان طیاروں کی فروخت کی ڈیل کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی جنگی جہاز کو گرانے کی خاطر ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کیے۔
اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے آج اتوار تین مارچ کو پاکستانی موقف کے تناظر میں روئٹرز کو بتایا، ’’ہم تمام معلومات سے باخبر ہیں اور اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم، دفاعی سازوسامان کے غلط استعمال کے تمام الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا جب عسکری سازوسامان فروخت کرتا ہے تو اس سلسلے میں کیے جانے والے معاہدوں میں کچھ پابندیاں بھی لاگو کی جاتی ہیں کہ اس ساز و سامان کو کس طرح اور کن حالات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد حکومت نے بھارتی طیارہ مار گرانے کے عمل کو دفاعی کارروائی قرار دیا ہے کیونکہ اس کے مطابق یہ بھارتی طیارہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوا تھا۔
ستائیس فروری کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں گر کے تباہ ہونے والے اس بھارتی طیارے کے پائلٹ، ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے ایک حکم نامے کے بعد انہیں واپس بھارت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔