اعداد و شمار کی سائنس ہمیں کب، کیوں اور کیسے کی حقیقت تک رسائی میں معاونت کرتی ہے۔ جس سے حقائق بے نقاب۔ دلائل مضبوط۔ اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر چہروں کی کتاب استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان کا 27 واں نمبر ہے۔ پاکستان میں 2009 میں 0.4 ملین 2010 میں 1.4 ملین، 2011 میں 3.6 ملین، 2012 میں 6.4 ملین اور 2013 میں 100 ملین ہے۔ مردوں کا استعمال 70 فیصد اور خوتین 30 فیصد۔ تعداد اور عمروں کا تناسب۔ 13-17 سال کی عمر کے 1,183,640 افراد 18-24سال کی عمر کے 4,275,900 افراد 25-30 سال کی عمر کے 1,767,800 افراد 30-40 سال کی عمر کے 1,135,320 افراد 40 سال اور اس سے زائد عمر کے 5,03,080 افراد استعمال کرتے ہیں۔ کل تعداد 8,648,000 جس میں گزشتہ 6 ماہ میں 1,162,040 افراد کا اضافہ ہوا موجودہ تعداد تقریبا 10 ملین ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں 45 فیصد اضافہ ہوا۔ گیمز پسند کرنے والے افراد کی تعداد 5,47,980۔ کوکنگ 4,58,200 ۔ ڈانس 6,01,960 ۔ ریڈنگ 1,954,080 ۔فیشن 2,17,928 اور سنگل تعلقات 1,930,500 ہے۔
چہروں کی کتاب میں۔ بے حساب چہرے۔ ہم مزاج چہرے۔ پسندیدہ چہرے۔ کاروباری چہرے۔ سیاسی چہرے۔ حسین چہرے۔ مکروہ چہرے۔ وطن پرست چہرے۔ مذہبی چہرے۔ سازشی چہرے۔ نوجوان چہرے۔ چہروں پہ چہرے۔ شرارتی چہرے۔بے حیا چہرے۔ بے نقاب چہرے۔ بے لباس چہرے۔ ناأشنا چہرے۔ جب سے ربط عام ہوا ہے۔ چہرہ شناسی سے مزاج شناسی اسان ہو رہی ہے۔ اظہار أسان ہو رہا ہے۔ دل کی مشکل بات کہنی اسان ہو رہی ہے۔ جو بات کہیں بھی نہ کہی جا چہروں کی کتاب۔ 2 سکتی ہو یہاں کہنا ممکن ہے۔ چہروں کی کتاب پڑھنے والے أزادی اظہار رائے کے مفہوم سے اگاہ ہو رہے ہیں۔ لیکن چہروں کی کتاب سے بہت سارے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ بہت ساری اخلاقی برائیوں تک پہنچنا اسان۔وقت کا ضیائع۔ غیرضروری روابط۔ غیر اخلاقی وڈیوز۔ غیر ضروری افراد تک رسائی۔
تعلیم سے عدم توجہی۔ کیریئر سے لاپرواہی۔ والدین سے قطع تعلقی جیسی خرابیوں کی ذمہ داری بھی اسی چہروں کی کتاب کے ذمہ ہے۔ جس سے کہا جاتا ہے کہ ہم اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ١ور جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ اس پر غیر معیاری اور غیر شائستہ پوسٹس کی جاتی ہیں جوکہ در ست ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ جس پلیٹ فارم کو بچے، نوجوان، بوڑھے، مرد اور خواتین بیک وقت استعمال کر رہے ہوں وہاں بچے کہیں کہ سنجیدہ پوسٹس نہ ہوں، اور نوجوان کہیں کہ نصیحتوں والی پوسٹس نہ ہوں، بوڑھے کہیں کہ شرارتی پوسٹس بند کریں اگر اس صورتحال کا ادراک ہو جائے تو اختلافات کم ہو سکتے ہیں اور ناپسندیدگی کی اذیت سے بچا جا سکتا ہے۔ ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم نے ہر ایجاد کو کفر کا طعنہ دے کر ارتقاعی مرحلے میں داخل ہونے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ ارتقاء فطرتی تسلسل ہے۔ اس نے ہو کر رہنا ہے۔ فطرت نے ہر چیز کے اندر مثبت اور منفی صفات رکھی ہیں۔ تاکہ مستفید ہونے والوں کو ازمایا جا سکے۔ اگر منفی قوت کے خاتمے سے ہی ہم مسلمان رہ سکتے ہیں تو پھر خالق کو تو ایسے عابد قبول ہی نہیں۔ شر کا ہونا بھی لازم ہے اور اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔
Terrorists
لہذا شر کے وجود کو مان کر ہمیں اپنی توانائیاں مثبت طرز زند گی کی طرف صرف کرنی چاہیں۔ لاوڈ سپیکر پر کفر کا فتوی لگانے والے اج تقریر کا وقت دینے سے پہلے ایکو ساونڈ کی شرط لگاتے ہیں۔ چہروں کی کتاب۔ ازادی اظہار رائے کے عاشقوں کا پہلا پہلا پیار ہے۔ اگر کسی ماہر نفسیات سے معلوم کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وئہ کہہ دے کہ ظلم، جبر اور ناانصافی کے ماحول میں رہنے والوں کو اتنی سی چہروں کی کتاب۔ 3 أزادی میسرأ جائے تو ظلم و جبر کے نفسیاتی مریض أزادی کو ایسے ہی استعمال کرتے ہیں۔ أزادی کو أزاد کر دیا جائے۔ عام کر دیا جائے تو پھر چہروں کی کتاب سے وابستہ لاحق خطرات کم کیئے جا سکتے ہیں۔ چہروں کی بڑھتی ہوئی شناسائی۔ طاقت والوں کے لیئے خطرات بڑھا رھی ہے۔ اسی لیئے طاقت والی اقلیت کو چہروں کی کتاب کے اندر۔ دہشت گردوں کے چہرے۔ غداروں کے چہرے۔ سازشیوں کے چہرے۔ مذہبی وسیاسی منافرت پھیلانے والوں کے چہرے صاف اور زیادہ نظر انے لگے ہیں۔
چہروں کی کتاب صحافت کے سائنس دانوں اور دانشوری کی سیاست کرنے والوں کو بھی بدمزہ کرنے لگی ہے کیونکہ وئہ جو چھپانا چاہتے ہیں اسے چہروں کی کتا ب کے ذریعے دنیا جان جاتی ہے۔ الیکٹراونک اور پرنٹ میڈیا کی سازشیں، سیاستیں اور کرپشن چہروں کی کتاب میں اس حکم کے ساتھ جب پوسٹس ہونے لگیں کہ اس پوسٹ کو جنگل کی اگ کی طرح پھیلا دو اور وئہ پھر جنگل کی أگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ سیاست سے زیادہ صحافت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے خطرے میں ہیں۔چہروں کی کتاب کو بہت پہلے بند ہو جانا چاہیے تھا لیکن شاید یہ نیک نامی موجودہ حکومت کے حصے میں انے والی ہے۔وئہ اختیارات جو عام ادمی کے ہاتھ اگئے اب ہر پوسٹ پر ٹیکس لگا کرپھر مخصوص لوگوں کا ہی تسلط قائم کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہت سارے حقائق اور بیانات جو کسی اخبار یاٹی وی چینل پر نہیں أسکتے تھے لیکن چہروں کی کتاب میں أ جاتے ہیں اسی ممکن کو پھر ناممکن بنایا جا رہا ہے۔
غیر مستند اور غیر شائستہ پوسٹس کو روکنے کے لیئے چہروں کی کتاب ہی بند کر دی جائے۔ سیاست سے صحافت تک خرابی کہاں نہیں ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ لائبریریاں اجڑ رہی ہیں، کتابیں ردی میں بک رہی ہیں، کتابوں کے خریدار نایاب ہوتے جا رہے ہیں تو کیا دانش بانجھ ہونے والی ہے ؟ نہیں دنیا ارتقائی عمل سے بہتری اور عالمگیریت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اب أپ ١١ ڈالر سالانہ فیس دے کر ای لا ئیبر یری سے لاکھوں چہروں کی کتاب 4 کتابیں پڑھ اور محفوظ کر سکتے ہیں۔ اب وقت ان پہنچا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو علماء مشائخ ونگ بنانے کی بجائے چہرے اشنائی ونگ ترتیب دینے ہوں گے۔ حکومتوں کو بھی جلد چہروں کی کتاب کا کوئی وزیر مقرر کرنا پڑے۔ حکومت اور سیاست دانوں کو بھی بدلتے حالات میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ چہروں کی کتاب مضبوط اپوزیشن کا کردار سنبھالنے والی ہے۔ اب شاید فرینڈلی اپوزیشن والی اپشن حکومت کو مستفید نہ کر سکے۔ حکومت، قانون و انصاف فراہم کرنے والے ادارے اگر ان پوسٹس کو مانیٹر کر کے خرابیوں، کوتاہیوں، ظلم و ناانصافیوں کے خلاف کام کرنے لگیں تو حکومت اور ادارے نیک نامیوں کے بہت سارے ٹارگٹ اسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
چہروں کی کتاب کو مکروہ و مخالف چہروں کی کتاب سمجھنے کی بجائے اسے پاکیزہ چہروں کی کتاب بنانے کے لیئے حکومت مثبت او ر ذمہ دار کردار ادا کر سکتی ہے۔خفیہ ایجنسیاں اور ماہر نفسیات اگر چاہیں تو چہروں کی کتاب پر پوسٹ ہونے والی تحریروں، تصویروں، پسند، تعلقات اور شیئر کرنے کے عمل کو مانیٹر کرکے مستقبل میں أنے والی تبدیلیوں، عوامی مزاجوں، سیاسی پارٹیوں کی سیاسی ساکھ، اداروں کی بد نظمی، حکومتی کارکردگی، کرپشن، ناانصافی، سیاست کے بدلتے رخ اور ملکی سالمیت کے خلاف سازشوں سے ا ٔگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اعداد و شمار اکٹھے کرکے اجتماعی قومی مزاج پڑھا جا سکتا ہے۔ منفی پہلووں کو مثبت بنانے کے لیئے لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے۔ انے والی تبدیلیوں کیلئے پیش بندی کی جا سکتی ہے۔ چہروں کی اس کتاب کو سماجی انقلاب کے لیئے استعمال میں میں لایا جا سکتا ہے۔ قیام امن، وبائی امراض، سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو، انسداد منشیات، بجلی بچانے کی قو می مہم، شعور بیداری، ٹیکس کی ادائیگی اور دیگر سماجی بھلائی کے کاموں کے لیئے بھی استعما کیا جا سکتا ہے۔
چہروں کی کتاب۔ 5 چہروں کی کتاب اب صرف عاشقوں اور شاعروں کی کتاب نہیں رہی۔ یہ مشکل کتاب ہوتی جا رہی ہے۔ اب یہ بیک وقت سیاسی کتاب بھی ہے، مذہبی کتاب بھی ہے، سماجی کتاب بھی ہے، پبلک ریلیشنگ کی کتاب بھی ہے، اب یہ مزاجوں اور رویوں کی کتاب بھی ہے، اب یہ مقامی اور قومی کتاب بھی ہے۔ اور یہ عالمی کتاب بھی ہے۔ پاکستان میں اگر ای میل اور چہروں کی کتاب کی ائی ڈی کیلئے شناختی کارڈ اور ایک ریفرنس لازم کر دیا جائے تو اس کتاب کو بہت ساری الودگیوں اور خرابیوں سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ اور وئہ بہت سارے خطرات کم کیئے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے بعض دانشور اسے بند کر دینے کی تجاویز دے رہے ہیں۔ چہروں کی کتاب پر ٹیکس أزاد ی اظہار رائے پر ٹیکس تصور ہوگا۔ چہروں کی کتاب کوئی نصابی کتاب نہیں جس سے جس و قت چاہیں مذہبی نصاب نکال دیں۔ یہ عالمی مفاد کی کتاب بھی ہے جب پوری دنیا کے لیئے کوئی خطرہ نہیں تو پھر یہاں بھی چہروں کی کتاب کو تبدیلی لانے دیں۔ تبدیلی وقت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وقت کی مجبوری ہوتی ہے۔