تحریر: انجینئر افتخار چودھری ویسے ہم کمال لوگ ہیں بر ائی کا سر مونڈتے ہیں اس کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے اپنے بچوں کا ماتم بھی یک طرفہ کرتے ہیں سرکاری مدرسوں میں شہید ہوں تو آسمان تک چیخیں بلند کرتے ہیں وہی بچے کسی مدرسے میں قران پڑھتے ہوئے مارے جائیں تو کہہ دیتے ہیں دہشت گرد تھے۔ یہ دو رخی اس معاشرے کا المیہ بن چکی ہے۔ افغانستان پاکستان عراق اور اب شام بھی اسی آگ میں جل رہا ہے۔ لڑائی اس پر ہے کہ پہلے رکے گا کون؟ میں نے آج کے اس کالم میں اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
مجھے علم ہے کہ لبرل فساد یے اور وہ جنہیں پتہ ہی نہیں کہ اس ملک خداداد کے ساتھ کیا ہو رہا ہے بلبلا اٹھیں گے۔انجینئر عبدالرفیع مرحوم فرمایا کرتے تھے ۔کہ پاکستان کو جب بھی توڑا جائے گا اس کی فوج کو کمزور کر کے توڑا جائے گا۔دیکھ لیجئے ہماری فوج کہاں کہاں الجھا دی گئی ہے۔دشمن نے اسے افغانستان کے بارڈر پر بھی الجھا دیا ایران کے بارڈر پر بھی۔انڈیا تو ازلی دشمن ہے ہی۔بہر حال اس کالم کو ٹھنڈے دل سے پڑھئے اپنی تجاویزiach786@gmail.com پر بھیجئے۔ انجینئر رفیع کون تھے؟وہ ضلع ناظم ایبٹ آباد سردار شیر بہادر کے سسر،پی ٹی آئی کے عظیم نوجوان ٹائگر عمر شیر خان کے نانا اور ایک عظیم مفکر تھے جن کو قائد اعظم کی قربت بھی میسر رہی۔میں نے ان کے ساتھ دو عشرے گزارے۔ عجب آزاد مرد تھے۔
اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت بخشے۔آمین۔میں وقار حیدر کی وال پر گیا وہاں سے یہ تصویر اتار لایا۔مجھے اس بچے کی اس تصویر سے کیا سبق ملا وہ تو آئیندہ سطروں میں واضح ہو جائے گا۔پہلے بتائیے بچہ کہاں کا ہے؟یقینا یہ کسی مسلمان کا ہی بچہ ہو گا۔اس لئے کہ آج دنیا میں اسے ہی رونا ہے۔کبھی کسی غیر مسلمان کا بچہ ایسے نہیں رویا ہو گا۔اللہ ساری دنیا کے بچوں کو خوش رکھے یہودی کے بچے اور ہندو،سکھ ،عیسائی،بدھ مت ماننے والے غرض وہ جو خدا کو نہیں مانتا اس کے بچے کے منہ پر ایسی مایوسی نہ ہو۔لیکن میں آخر اسے کیوں فلسطینی کا بچہ کہنے پر مجبور ہوں اس لئے کہ اس چہرے پر جو حسرت مایوسی ہے وہ اسی دیس میں ملتی ہے۔وہیں ردائیں زلیل ہوتی ہیں۔جہاں کی چار دیواریاں بلڈوزروں کی زد میں ہیں وہ ملک فلسطین تو ہے میرے محسن مربی اسامہ ابو احمد کا دیس۔
Palestinian child
اس کے ماں باپ کو گھر سے نکال دیا ہو گا۔اس کے کھلونے قتل کئے ہوں گے۔نائن الیون میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے گرنے سے اتنا مایوس تو جارج بش بھی نہیں ہوا ہوگا،جتنا اپنی ماں کے مرنے پر یہ فلسطینی بچہ نظر آتا ہے۔اس کے لئے کسی فرزانہ باری عاصمہ جہانگیر کے پاس وقت نہیں ہوگا۔اس لئے کہ عورت فائونڈیشن نے مظاہرہ نہیں کیا ہو گا اس لئے کہ ایسا کرنے سے انہیں رقم نہیں ملے گی۔نہ ھود بھائی نہ کوئی اور چیخا ہو گا۔کسے دیکھ کر منہ بسور رہا ہے یہ بچہ،یقینا کوئی اسرائیلی سپاہی ہو گا۔اس کی آنکھوں میں ایک درد ہے۔اس بچے کی آنکھوں کو کون پڑھے گا؟یہ بزدل دنیا،یہ بزدل پاکستان جو کبھی ان بچوں کی چیخوں پر چیخ اٹھتا تھا۔لد گئے دن اس پاکستان کے اب تو اس دھرتی پر حمید گل بھی نہیں رہا جو امت مسلمہ کے درد پر مرغ بسمل بن جایا کرتے تھے۔وقارحیدر نے آج بڑی بات کہہ دی جو میں سمجھتا ہوں میرے قد سے بڑی تو ہے ہی واقعتا اس کا وجود نہیں ہے۔(میں کیا میرا شوربہ کیا؟)اسے میری تحریروں میں حمید گل دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن یہ مکمل جھوٹ بھی نہیں، کیوں نہیں ا س مرد درویش کے ساتھ ایک وقت گزارا حرمین میں ریاض میں جدہ میں اور پنڈی میں۔ خود رو پودوں کا کوئی مالی نہیں ہوتا؟اس کا مالی اللہ ہوتا ہے۔یہ زمین پر کھڑی ٹالیاں کیکر بیری دریکھ ان کا مالی کون ہے۔حمید گل جہاں گئے داستاں چھوڑ گئے اپنی نشانیاں عبداللہ گل اور عمر گل تو ہیں ہی لیکن ہم جیسے نظریاتی بیٹے اور بھائی بھی تو ہیں۔ایک روز آئے کہنے لگے میرے پاس ایک گھنٹہ ہے تمہارے لئے۔اور جب چار گھنٹے گزر گئے تو میں نے کہا حضرت بتا دیتے رات کا کھانا کر لیتا۔محبت کا ایک سیل رواں جو اس قوم کو زندگی دے گیا۔ایک بار جب حضرت علامہ اقبال پر ایک لیڈر نے ہرزہ سرائی کی تو کہنے لگے کاش چودھری رحمت علی کی تذلیل روکی گئی ہوتی تو آج اقبال پر کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ کہتے ہیں تخت کبھی خالی نہیں رہتے بات تو ٹھیک ہے مگر ان تختوں پر جب جھوٹھیں بیٹھی دیکھتا ہوں تو دعا کرتا ہوں خالی ہی رہ جاتے تو کیا برائی تھی۔
اقبال کی سر زمین سے سب بزدل چوہے نکلے کیا صاحبان اقتدار اور کیا اپوزیشن اپنے آپ کو مسلم لیگ کے ورثا کہنے والے کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو کہ کیا تم اسی مسلم لیگ کے وارث ہو جو غازی علم دین شہید کے جنازے کی وارث تھی؟ جس نے نیل کے ساحل سے کاشغر کی دھرتی کے تک ؟حفظ کی قسم کھائی تھی کیا تم اسی اقبال کے وارث ہو جس نے کہا تھا کہ ترکھاناں دا منڈہ ساڈے کولوں اگے لنگ گیا جئے۔قادری نو دبدیاں دیر نئی لائی۔ان خالی تختوں پر بیٹھے بزدل لوگ اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہم اقبال کے وارث ہیں اور اپوزیشن کے وہ لوگ جو کہا کرتے تھے کہ ہم ہزار سال لڑیں گے مطیع الرحمن کی موت پر بزدل بنے رہے۔ اساں قیدی بزدل لوکاں دے۔اس بچے کا منہ بسورنا کسی افغان بچے کی بھی یاد دلاتا ہو گا آپ کو بھی اور مجھے بھی۔ہو سکتا ہے کوئی اندھا ڈرون اس کی ماں کو اس سے چھین کر لے گیا ہو گا۔کسی راکٹ نے اس کے گھر کا رخ کر لیا ہو گا۔کسی امریکی اڈے سے یا پھر وہ لوگ جو یہ دعوی کرتے ہیں امریکنو تم نہ مارو ہم ماریں گے۔بتائیے بکرے کو کوئی مسلمان ذبح کرے یا ہندو اس کا جھٹکا کرے جان تو بیچارے بکرے کی ہی جاتی ہے۔مارو ان معصوموں کو اس لئے کہ اس زمین سے پر ہر پیدا ہونے والے بچے کہ نصیب میں زمینی خدائوں نے موت لکھ دی ہے۔اور بچہ کیا کشمیر کا نہیں ہو سکتا وہاں بھی تو برس ہا برس سے موت کی دیوی وحشیانہ کرتوت کر رہی ہے۔کشمیر کی مائیں گویا نیل کی سرخی کے لئے بچے جن رہی ہیں۔بارودی دھرتی پر پھول نہیں بم اگتے ہیں۔بس ذرا سوچنے کی بات ہے۔
Kashmir Child
کشمیر افغانستان کے ان بچوں کے مقدر میں اگر بسورنا لکھا گیا ہے تو ایک کام کرو ان سب کو چن چن کر مار دو کوئی ایک بھی نہ بچے۔تم بھی مارو امریکہ رشیا ہندوستان اسرائیل سب مل کر مارو ۔کوئی ایک بھی بچنے نہ پائے ۔میں اس دنیا کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے جوتجویز دے رہا ہوں،آپ کو کوئی مشکل نہیں ہو گی یہ بچے لال مسجد میں تھے،جنوبی وزیرستان میں تھے کشمیر میں یا اسرائیل میں انہیں آپ نے مارا تو سہی مگر اس جیسے بسورتے چہرے بچ گئے۔
آپ کو مارنے میں تکلیف ہی کیا ہے؟کیا مشکل ہے کیا عافیہ کو بیچنے والے دلال مر گئے ہیں۔مشرف ابھی زندہ ہیں۔کیا لال مسجد کو مروانے والے ملا مر گئے ہیں۔فضل الرحمان ابھی زندہ ہے۔ایمل کانسی والے تو تخت نشین ہیں۔فرق مکواء یہ لوگ آج بھی سودہ بیچنے اسی ملک میں موجود ہیں ،کھڑے ہیں عاصمہ جہانگیر ہے وہ ڈائن سی عورت نام بھول رہا ہوںاور تھوڑے ہیں ھود بھائی فرزانہ باری ماروی سرمد بہت ہیں جو انسانی حقوق کے نام پر انہیں غیر انسان سمجھتے ہوئے آپ کے حوالے کریں گے۔
میں آپ سے سچ کہہ رہا ہوں انہیں چن چن کر مار دو۔ورنہ انہوں نے کل بڑا بھی ہونا ہے۔یہ عمارتوں سے ٹکرائیں گے،بسوں میں مسجدوں میں سبزی منڈیوں لاری اڈوں ٹیوبز میں ،پھر چیتھڑے اڑیں گے۔دنیا کا سکوں برباد ہوگا۔ملالہ ملال زدہ ہو گی میڈونا گیت گائے گی،عاصمہ صف ماتم بچھائے گی۔اور اگر یہ سب کچھ نہیں چاہتے ہو تو اس بچے کے چہرے پر مسرت پھیلا دو،مسکراہٹ کا راج لے آئو۔اس کے کھلونے اسے واپس دے دو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچہ جوان ہو کر یا تو اپنی ماں کو بھول جائے اپنے ذہن سے اپنے کھلونے نکال دے ،کوئی تو ہو جو اس سینے سے نکال لے۔اس بچے کی یہ زمین پھاڑتی ہوئی تصویر مجھے تو یہی کچھ سمجھ آئی ہے۔آپ کو اگر کچھ اورپتہ چل گیا ہے تو مجھے ضرور بتانا۔میں قلم بیچتا نہیں اسی لئے آپ مجھے جانتے بھی نہیں۔
چہرے کی گرد پونچھنے والا کوئی تو ہو لمبی مسافتوں سے جو گھر جائے آدمی (مجاہد سید جدہ)۔