چہرے چہرے پہ وہی بے سرو سامانی ہے

labor

labor

تحریر : ایم سرور صدیقی
اس کے جسم پر میلے کچیلے، پھٹے پرانے کپڑے تھے، چہرہ حسرت و یاس کا ایک نمونہ لگ رہا تھا اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے اس نے زندگی میں کبھی کوئی خوشی نہیں دیکھی۔۔۔وہ ایک گھنٹے سے ڈیوڈ اینڈ ڈیوڈ انجیرٔنگ نامی کارخانے کے مالک سے ملنے کیلئے کوشش کر رہا تھا اس کی چھوٹی بیٹی کافی دنوں سے بیمار تھی دوا کیلئے پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی وہ مالک سے کچھ رقم مانگنے کی درخواست کرنا چاہتا تھا لیکن منیجراس کی بات ہی نہیں مان رہا تھا وسیع و عریض دفترمیں ہنسنے اور نقرئی قہقہوں کی آوازیں اس کی کنپٹیوں پر مسلسل ہتھوڑے کی ضربوں کی مانند محسوس ہو رہی تھی۔۔۔اتنے میں دفتر کا دروازہ کھلا کارخانے کا مالک باہر جانے کیلئے نکلا عقب میں ایک حسین فتنہ بھی موجود تھا۔۔۔ وہ لپک کرآگے بڑھا اس کے سامنے جا کر ہاتھ جوڑ کر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ مالک داڑھا۔۔ ایڈیٹ۔۔ تمہاری جرأت کیسے ہوئی میرے منہ لگنے گی۔

سر۔۔۔مزدور نے پھر کچھ کہنا چاہا ۔۔ لیکن اسی اثناء میں منیجرنے آگے بڑھ کر اسے دھکا دیا وہ لڑھک کر دور جاگرا اور مالک حسینہ کی باہوں میں باہیں ڈالے کار میں بیٹھ کر یہ جاوہ جا کیپ ٹائون کی ایک فیکٹری میں کئی مرد وزن مشینی اندازمیں کام کررہے تھے اس دوران کبھی بھی باتیں بھی کرتے فیکٹری میں اجرت کا کوئی باقاعدہ انتظام تھا نہ ڈیوٹی کے اوقات مقررتھے رات دن کی تمیز بھی نہیں تھی اکثر و بیشتر انہیں12 گھنٹے کام کرناپڑتا مالک اور ٹھیکیدار پھر بھی ناراض رہتے چھٹی کا تو تصور ہی نہیں تھابیماری کے دوران بھی کام کرنے کے بغیرکوئی چارہ نہ تھا کسی وجہ سے چھٹی کرنے پر اگلے دو روز کام جرمانے کے طورپر کرنا پڑتا کسی مزدور سے کوئی رعائت محال تھی آج مالکان نے اجرت دینے کا وعدہ کیا تھا اس لئے سب مزدور جوش و خروش سے کام کررہے تھے لیکن اکثریت سوچوںمیں غرق۔ ایک عورت شدید بخارکے عالم میں بھی سامان پیک کررہی تھی ایک مزدور سامان اٹھا اٹھا کر لارہاتھا اس کا پائوں دردسے سوجا ہوا تھا ایک اور مزدورکمر دردسے بے حال تھا پھربھی پیسے ملنے کی آس میں کام کئے جارہا تھا وہ سب فکرمند تھے ایک ہفتہ قبل بھی اجرت دینے کا وعدہ کرکے14گھنٹے کام لیا گیا پھر ٹال دیا گیا۔۔

1844ء تک پوری دنیا میں ایسے واقعات روزکا معمول تھے سرمایہ دار مزدوروں کو اجرت کم اور کام زیادہ لیتے تھے ان کی کوئی عزت ِ نفس نہ تھی پھر آہستہ آہستہ مزدوروں کو حالات کی سنگینی کااحساس ہوا انہوںنے اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا اور اجتماعی قوت سے اپنے مسائل حل کرنے کا فیصلہ کیا1862 ء تک امریکہ میں کم وبیش20سے زائد مزدور تنظیمیں وجودمیں آگئیں تھیں جنہوںنے مشترکہ لائحہ ٔ عمل کیلئے آپس میں مشاورت کا آغاز کیا 20اگست 1886ء کو77 مزدور تنظیموں نے ”نیشنل یونین آف لیبر”کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا جس نے اپنے یوم ِ تاسیس پرایک نکاتی چارٹرآف ڈیمانڈکااعلان کرتے ہوئے دنیا میں پہلی بار مزدوروںکیلئے اوقات کار کا تعین کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھاہم دن رات کے ایک تہائی وقت یعنی آٹھ گھنٹے کام کریں گے کیونکہ کام کی زیادتی کے باعث ہر سال سینکڑوں مزدور ہلاک ہو جاتے ہیں سرمایہ داروں نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے انتفامی کارروائیاں تیزکردیں آخرکار یکم مئی 1886ء کو مزدوررہنمائوںنے پہلی مرتبہ ہڑتال کی کال دی جس کو ناکام بنانے کیلئے مزدوروںکو تشددکا نشانہ بنایا گیاجس پردو دن بعدپھر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔۔

Chicago Workers

Chicago Workers

امریکی شہر شگاگو۔۔ کو 3 مئی 1886ء میں مزدوروں نے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کیلئے مکمل ہڑتال کا اعلان کیا شہر و مضافات کی تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور کار خانے بند تھے سینکڑوں مزدوروں نے اپنے حقوق کیلئے ایک بڑا جلسہ کیا پولیس نے اس جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے طاقت کا بلا جواز اور بے دریغ استعمال کرتے ہوئے نہتے مزدوروں پرفائرنگ کردی 5مزدور موقع پر ہی دم توڑ گئے متعدد زخمی ہوئے سرمایہ داروںکے ایماء پر ڈاکٹروں نے ان زخمیوں کا علاچ کرنے سے انکار کر دیا اس المناک واقعہ سے اگلے روز 4 مئی کو مزدوروں نے اپنے ساتھیوں کی تدفین کے موقعہ پرمارکیٹ چوک شگاگومیں ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی جس نے اختتام پر جلسہ کی شکل اختیار کرلی مقررین3مئی کو ہلاک ہونے والوں کو پر امن طریقے سے زبردست اندازمیں خراج ِ تحسین پیش کررہے تھے کہ ایک پولیس انسپکٹر کیپٹن بون پونے دوسو سے رائد سپاہیوں کو لے کرجلسہ گاہ میں داخل ہوااس نے نادرشاہی اندازسے جلسہ ختم کرنے کا حکم دیااس وقت آخری مقرر سیموئیول فلیڈن تقریر کررہے تھے اسی دوران جلسہ گاہ میں ایک دھماکہ ہوا جس میں چند پولیس اہلکار مارے گئے پو لیس انسپکٹر کیپٹن بون نے طیش میں آکرمزدوروںپر گولی چلانے کا حکم دیدیا تھوڑی دیر بعدجلسہ گاہ مقتل کا منظر پیش کررہا تھاپولیس کی بے ہنگم فائرنگ سے ایک عورت، ایک بچے سمیت11مزدور ہلاک ہوگئے ایک مزدور نے اپنی قمیص سیموئیول فلیڈن کے خون سے تر کرکے ہوا میں لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے یہ سرخ پرچم دنیا بھر کے مزدوروں کی جدوجہد کی علامت ہوگا۔۔اس کا کہا واقعی سچ ثابت ہواسرخ پرچم مزدوروں کی انقلابی مزاحمت کا نشان بن گیا۔ اس واقعہ کے بعد متعدد مزدور رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا ان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کردئیے گئے عدالت نے بھی جانبداری کی انتہا کردی مزدوروںکو تشددپر اکسانے،شگاگو کا امن تباہ کرنے اور پولیس اہلکاروں کے قتل کے الزام میں 4 چوٹی کے مزدور رہنمائوں اے ڈی فشر، اسپائز،اینجل اوررابرٹ پرنسز کو پھانسی جبکہ تین کو عمر قیدبا مشقت کی سزا سنائی گئی یکم مئی 1887ء کوسب سے پہلے اے ڈی فشرکو پھانسی دی گئی جب اسے پھانسی گھاٹ لیجایا جارہاتھا اس نے استقامت سے جو الفاظ کہے وہ تاریخ بن گئے اس نے کہا” غریبوں کی آواز کوبلند ہونے سے روکا گیا توان کی تلواریں بلندہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔مزدور رہنما اینجل کوجب سولی پر لٹکایا جانے لگا اس نے واشگاف الفاظ میں چیخ چیخ کرکہا” تم لوگ ہمیں قتل کرسکتے ہو لیکن اب اس تحریک کو نہیں دبایا جا سکتا”۔۔۔رابرٹ پرنسز نے تو پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اس کا کہنا تھا”تم اس آواز کو بندکرنے پر قادرہو لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ خاموشی آواز سے زیادہ طاقتور بن جائے گی۔۔

مزدور رہنما اسپائز کو جب تختہ دارپر لٹکایا جانے لگا اس کے الفاظ تھے” ہمیں اس پھانسی کا کوئی ملال نہیںخوشی اس بات کی ہے کہ ہم ایک اچھے مقصد کیلئے جان دے رہے ہیں” ان کا کہا حرف بہ حرف سچ ثابت ہواان کی قربانیاں آج محنت کشوںکے ماتھے کا جھومرہیں جس کی وجہ سے مزدوروںکومعاشی استحکام حاصل ہوا126سال گذرنے کے باوجودان کی قربانیاں آج بھی تروتازہ ہیں یہ اے ڈی فشر، اسپائز،اینجل اوررابرٹ پرنسز کی جدوجہدکا ثمرہے کہ مزدوروں کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے کئے گئے ان کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرلیا گیا بلاشبہ شگاگو کے شہیدوں کی جدوجہد انسانی تاریخ کا درخشندہ باب ہے یکم مئی دراصل بنیادی انسانی حقوق اور محنت کی عظمت پر یقین رکھنے والوں کادن ہے اسی لئے دنیا بھرمیں شگاگو شہیدوںکی قربانیوںکو خراج ِ تحسین پیش کیا جاتاہے جنہوںنے مزدور حقوق کی جنگ میں ایک نئی روح پھونک دی۔۔۔ لیکن جب ہم آج کے حالات پر غورکرتے ہیں تو محسوس یوں ہوتاہے جیسے شگاگو کے شہیدوں کی قربانیاں ضائع ہوگئی ہوں دنیا بھر میں یکم مئی جوش و خروش سے منایا جاتاہے ،بڑے بڑے ہوٹلوں،ایڈیٹوریم ،یخ بستہ ہالوں میںمذاکرے،بحث و مباحثہ ،تقریریں اور بلندبانگ دعوے کئے جاتے ہیں اس کے برعکس سینکڑوں ہزاروں شخص مزدوروںکے حقوق کی بات کرکے سرمایہ داروں سے مک مکا کرلیتے ہیں آج بھی ہر سطح پر مزدوروںکااستحصال جاری ہے ،کہیں مزدور یونینوں کے نام پر عہدیدار ،انکے عزیز واقارب اور ملنے جلنے والے اپنے ہی اداروں میں ڈیوٹی کرنا اپنی شان کے خلاف بات سمجھتے ہیں آجراس کے خلاف ایکشن لینے کا ارادہ کرے تو ان کا سب سے بڑا ہتھیارہڑتال کی دھمکی ہوتاہے اسی طرح زیادہ تر اداروں میں پاکٹ یونین کاقیام عمل میں لایا جاتاہے جو مالکان کی ملی بھگت سے صرف اپنے لئے آسودگیاں خریدتے رہتے ہیں اور عام مزدور کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔۔۔اسی طرح حکومت کے کرتا دھرتا اپنے مخصوص مفادات کیلئے ۔۔منافع بخش سرکاری اداروں کو پرائیویٹ سیکٹرکو فروخت کردیتے ہیں یا انہی اداروںمیں مختلف حیلوں بہانوںسے مزدوروںکی چھانٹی کی جاتی ہے۔۔۔کئی صنعتی اداروںمیں وقت پر تنخواہ نہیں دی جاتی یہ سب استحصال کی مختلف شکلیں ہیں طبقاتی نظام میں آج بھی محنت کشوں کوبہت سے مسائل کا سامناہے جن میں بھوک، افلاس، غربت، بیروزگاری، مہنگائی،بیماری اور جہالت سرفہرست ہیں جس کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ہم مسلمان ہونے کے باوجود شگاگو کے شہیدوں کو خراج ِ تحسین اس لئے پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے دنیا بھرکے انسانوںکو ظلم سے بچانے کیلئے اپنی جانوں کا نذزانہ پیش کیا بلاشبہ ان کا انسانیت پر بڑا احسان ہے ان کی قربانیوں کے اثرات ہررنگ،نسل،مذہب،زبان اور ملک پر مرتب ہوئے ہم سب پر شگاگو کے شہیدوں کا لہو قرض ہے آئیے!انسانیت پر احسان کرنے والے شگاگو کے مظلو موں کو عقیدت سے سلام پیش کریں خراج تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں مزدورکیلئے اس قدر روزگار کے مواقع فراہم کرے کہ ان کے بچوں کا مستقبل تابناک ہو جائے اورکسی کے ہونٹوں پر یہ شکوہ نہ ہو

کارخانے تو ہوتے جاتے ہیں تعمیر مگر
چہرے چہرے پہ وہی بے سرو سامانی ہے

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی