تحریر : شاہ فیصل نعیم تاریخ بتاتی ہے کہ مخملیں بستروں پہ دراز مائیں کبھی ہیرو پیدا نہیں کرتیں۔ کون ہوتا ہے ہیرو ؟ جو ذاتی مفاد کے لیے ملک و قوم کو بیچ آئے؟ جو جبرو استبداد کا بازار گرم کرے؟ جو طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دے؟ جو اپنے آج کے لیے عوام کے روشن کل کو ناختم ہونے والی سیاہ راتوں کے سپرد کر دے؟ جو مملکتِ خداداد کو اپنی جاگیر سمجھے؟ جو انصاف کی دھجیاں بکھیر دے؟ جو اس قدر طاقت کے نشے میں گم ہو کہ اُسے کوئی اور نظر ہی نا آئے۔
قوم کی بیٹیاں جس کی نفسانی ہوس کا سامان بنیں؟ہنستی بستیاں جس کے شیطانی عزائم کا نشانہ بنیں؟جو جیے تو لوگ مر رہیں ہوں جو مرے تو لوگ جی اُٹھیں؟ جسے حکم ِ خدا کا نا پاس ہوجو سنتا کسی کی نا فریاد ہو؟ ایسا انسان کبھی بھی ہیرو کہلوانے کے لائق نہیں ہو سکتا۔
ہیرو دماغوں میں نہیں دل میں کرپشن میں ملوث حکام، انصاف سے بالا عہددارانِ سلطنت، عوام سے غلاموں سے بدتر سلوک روا رکھنے والے بادشاہ، سرکاری املاک کو عیش و عشرت کا سامان بنانے والے عیاش، جلتی، ترستی، بلکتی، تڑپتی انسانیت کا تماشا دیکھتے تماش بین، عوامی اعتماد کو ٹھیس پہچانے والے بدذات، کفریہ ایجنڈوں پہ کام کرتے شرپسند، زندگی کو موت کی نیند سلانے والے درندہ صفت انسان، ایدھی جیسی عظیم ہستی کو بھی نا بخشنے والے چور، غیر ملکی آقاؤں کی جی حضوری کرتے والیانِ سلطنت ، مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو جنم دینے والے دین کے ٹھیکیدار کبھی بھی ہمارے ہیرو نہیں ہو سکتے۔
Corruption
یہ لوگ ملک ِ پاکستان کا اصل چہر ہ نہیں ہیں ، اس ملک کا اصل وقار وہ لوگ ہیں جو نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بھی اپنا تن من دھن اس ملک کے لیے عزت حاصل کرنے پر لگا رہے ہیں۔ کسی بھی ہیرو کو راستے کی مشکلوں سے ماورا منزل نہیں دی گئی۔
ہیر و وہی ہے جو ہر طرح کی تنگیِ حالات کے باوجود بڑا سوچے اور آخر کار کچھ بڑا کر گزرے جو دنیا کو انگشتِ بدنداں کردے۔ پاکستان وطن ہے اُن لوگوں کا جو حالات کی پروا کیے بغیر اسے دنیائے کرکٹ کا فاتح بنا دیتے ہیں، ہارون طاہر، الماس اطلس، زوہیب احمد، علی معین نوازش اور ارفع کریم رندھاوا جیسے زرخیز دماغوں کو سمویا ہے۔
اس مٹی نے، عمران خان، یونس خان، سعید انور، جاوید میانداد، وسیم اکرم، شعیب اختر، جہانگیر خان اور عبدالخالق (پرندہِ ایشیا) جیسے لوگ فخر ہیں اس دھرتی ماں کا، کیپٹن محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر راجہ عزیر بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید،سوار محمد حسین شہید،میجر محمد اکرم شہید،لانس نائیک محمد محفوظ شہید،کیپٹن کرنل شیر خان شہیداور حوالدار لالک جان شہید کے لہو کی سرخی اس غیور قوم کے حوصلوں کی آئینہ دار ہے جو آج بھی پیغام دیتی ہے۔
ہر اُس دشمن کو جو اپنے ناپاک عزائم سے دیکھتا ہے اس وطن عزیز کو کہ اس ملک و قوم کے محافظ کس حد تک جانے کا جذبہ رکھتے ہیں، پاکستان کا دفاع نا قابلِ تسخیر ہے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شبانہ رور محنت سے، ہمیں یہ ملک ملا اقبال کے خواب اور جناح کے عزائم سے، سر اور ساز زندہ ہیں نصرت و رفیع کی آواز سے اور فیض احمد فیض ، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور منیر نیاز ی کے کلام سےاور اس ملک کا دامن بھرا ہے ہزار ہا ایسے لوگوں سے جو اپنےفن کی بنا پر اقوام عالم میں پاکستان کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔
اے دنیا کے با سیوں ! پاکستان کی جو تصویر تم دیکھتے ہو وہ پاکستان کا اصل کا چہر ہ نہیں ہے یہ ہے پاکستان کا اصل چہرہ یہ ہیں وہ لوگ جنہیں تم کاٹ بھی دو تو ان کا لہو بھی اس ملک سے ان کی وفاداری کی گواہی دے گا۔ جب تک یہ لوگ زندہ ہیں کفریہ طاقتیں جتنا مرضی زور لگا لیں اس پاکستان کو کچھ نہیں ہونے والا۔