میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک نے میانمار کی فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو اپنے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ فیس بک کی جانب سے اس پابندی کا اعلان کیا گیا۔
فیس بک کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی کے بعد میانمار کی فوج کے ساتھ ساتھ اس کی نگرانی میں چلنے والی تمام کمپنیاں انسٹاگرام کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکیں گی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ پابندی کی بنیادی وجہ یکم فروری کو ملکی فوج کی طرف سے جمہوری حکومت کا ختم کیا جانا اور میانمار میں اقتدار پر قبضہ بنا۔
فیس بک کے مطابق یکم فروری کے بعد عوامی مظاہروں کے شرکاء پر کیا جانے والا تشدد بھی اس پابندی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ پابندی کے اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ فیس بک اور انسٹاگرام کے ملکی فوج اور اس سے منسلک اداروں کی طرف سے استعمال کا بڑا خطرہ ہے۔
اس پابندی کا اطلاق فوری طور پر کیا گیا ہے۔ قبل ازیں فیس بک نے میانمار کی فوج کے پیجز پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
فیس بک اور میانمار کے جرنیل سن 2018 میں فیس بک نے میانمار کی فوج کے سینیئر ترین جنرل من آنگ ہلینگ اور دیگر اعلیٰ افسران کے اکاؤنٹ منجمد کر دیے تھے۔ رواں برس یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت قومی لیگ برائے جمہوریت کی جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں بھی جنرل من آنگ ہلینگ ہی سب سے نمایاں ہیں۔
جنرل ہلینگ موجودہ فوجی حکومت کے سربراہ بھی ہیں۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فوجی حکومت نے ملک میں فیس بک کو بلاک کرنے کی کوشش بھی کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔
فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کی صورت حال کو ختم کرنے کے لیے سفارتی عمل شروع ہو چکا ہے۔ انڈونیشیی وزیر خارجہ رتنو مارسودی نے بدھ چوبیس فروری کو میانمار کی خاتون وزیر خارجہ سے ان کے ملک کی بحرانی صورت حال پر گفتگو کی۔
یہ بات چیت تھائی لینڈ میں ہوئی۔ مشرقِ بعید کے ملک انڈونیشیا اور اسی خطے کے ممالک کی تنظیم آسیان بھی میانمار کا بحران حل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ انڈونیشی وزیر خارجہ مارسودی کا کہنا ہے کہ بحرانی حالات کے تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں تا کہ حالات پرتشدد نہ ہو جائیں۔ مغربی اقوام بھی میانمار کے بحران کے سفارتی حل کی حامی ہیں۔
دوسری جانب میانمار کے عوام جمہوری حکومت کی بحالی کی حمایت میں ینگون سمیت کئی شہروں میں اپنے پرامن مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج جمعرات کو بھی کئی بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ ان مظاہروں میں فوج کی حکومت سے دستبرداری اور سوچی حکومت کی بحالی کے لیے آوازیں بلند کی گئیں۔
رواں ہفتے کے دوران پیر کے روز بھی فوجی حکومت کے سخت انتباہ کے باوجود ملک گیر ہڑتال کے دوران بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ فوجی حکومت ایک سال بعد نئے پارلیمانی الیکشن کرانے کا اعلان کر چکی ہے۔