تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے، جیسا معاشرہ ہوتا ہے میڈیا اُس کو ویسے ہی دیکھاتا ہے، گزشتہ روز ایک خبر جو بار بار پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی ور الیکٹرانک میڈیا کے دیکھا دیکھی پرنٹ میڈیا پر بھی شائع ہوئی، خبر کیا تھی؟ فیس بک کی دوستی، چکوال کی اعلیٰ تعلیم یافتہ طالبہ زیادتی کے بعد قتل ،24 سالہ تہمینہ کوثر کو مبینہ زیادتی کے بعد پلازہ کی تیسری منزلسے نیچے پھینک دیا گیا۔جو سر اور جسم کے دیگر حصوں پر لگنے والی شدید چوٹوں سے دم توڑ گئی Sidraw Shaikh فیس بک آئی ڈی پر مورخہ Nov 23 at 11:55 pm پر جو اپڈیٹس کی گئی ہیں وہ کچھ یوں تھی،میرا تہمینہ سے چار سال پرانا تعلق تھا۔
ان دنوں میں یونیوسٹی میں تھی،ایک دفعہ ہفتہ وار چھٹی پر گھر جا رہی تھی فرنٹ سیٹ پر ایک دبلی پتلی خوش شکل سی لڑکی بیٹھی تھی۔سفر شروع ہوا تو ہماری باتوں کا سلسلہ بھ چل نکلا،اس نے پوچھا آپ کہاں پڑھتی ہے تو میں نے اپنی یونیورسٹی کا بتایا پھر اس نے بتایا کہ وہ اے سی سی اے کی تیاری کر رہی ہے دو گھنٹے کا مسافت سے تعارف سے چلتی بات ایک اچھی خاصی دوستی میں میں بدل گئی۔
Facebook
گاڑی سے اُتر کر گھروں کو چلنے سے پہلے ہم نے ایک دوسرے سے فیس بک کی آئی ڈی اور موبائل نمبرکی تفصیل لینا نہ بھولیں تہمینہ کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا تھا جن کو یاد رکھنا پڑتا ہو بلکہ وہ یاد رہتے ہیں،فیس بک پر چیٹ کبھی میسجنگ پر بات ہوتی ۔ ہم اکثر کہا کرتیں تھیں کہ ملیں مگر جب میں چکوال ہوتی تو وہ اسلام آباد ہوتی کبھی وہ چکوال اور میں اسلام آباد یہاں بھی روٹین ایسی کہ ملنا نہ پایا ، وقت گزرتا گیا اور میری جاب ہو گئی،اور اس نے اے سی سی اے چھوڑ کر قائداعظم یونیورسٹی میں ایم ایس سی ان کمپیوٹر سائنسز میں ایڈمیشن لے لیا۔اس نے دو سمسٹرز میں ٹاپ کیا تھا،فیس بک کی پروفائل سے دیکھا جا سکتا ہے کہ جس سے اس کے رویے اور رجانات کا اندازا لگایا جا سکتا ہے تہمینہ بہت احساس تھی ۔
کبھی اس کا میسج آتا سُن فری ہے تو میں چائے خانہ جا رہی ہوں آجا۔میں اس وقت کسی اسائمینٹ ہوتی سو نہ جا سکی ۔ میں نے اس کو میسج کیا ،کیپٹنز کک چلیں فری ہے تو۔۔۔ تب اُسکی کلاس ہوتی۔رمضان میں ایک دن اس کا فون آیا کہ میرا بہت دل کر رہا ہے تم سے بات کرنے کومیں نے پوچھا خریت ہے تو مصنوعی شرماہٹ سے بتانے لگی۔ زارو میرا رشتہ پکا ہو گیا ہے !میں نے اس کو پر جوش انداز میں مبارکباد دی۔ بتانے لگی کہ سسرالی یو کے میں سیٹل ہیں،کہنے لگی ڈائریکٹ شادی کریں گے، کچھ ہی روز پہلے بتانے لگی آج کل شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں،شاپنگ ہو رہی ہے صفر کے بعد شادی کی تاریخ رکھ دیں گئے، آج میری ہفتہ وار چھٹی تھیدیر سے اُٹھی تھی،واٹس ایپ پر اآفس والے گروپ میں خبروں کی بھرمار تھی۔
ایک خبر یہ بھی تھی کہ چکوال کی تہمینہ نامی لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا،عمیر نامی ملزم کا تعلق وہاڑی سے بتایا جاتا ہے۔میں نے سرسری سی خبر پڑھی اور گھر کے کام کاج میں لگ گئی،تین بجے کے قریب مجھے چکوال سے ایک کزن کی کال آئی، زارا تہمینہ کی ڈیتھ ہوگئی ہے،میں نے گھبرا کر پوچھا کب ؟کہنے لگی!آج صبح راولپنڈی میں شاید کوئی روڈ ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔مجھے ایک دم صبح والی خبر یاد آئی۔ میں نے اپنے چینل کے کرائم رپورٹر سے رابطہ کیا اس نے مجھے تفصیلات بتائیں کہ تہمینہ نامی لڑکی کو اجتماعی زیادتی کے بعد تیسری منزل سے پھینک کر قتل کر دیا گیا۔ساتھ ہی تہمینہ کی خون آلودتصاویر بھی وٹس ایپ کر دیں۔۔
ٹی وی لگایا تو ہر چینل یہیں بریکنگ چل رہہی تھیں، کسی نے فیس بک پر ہونے والی دوستی کا انجام قرار دیااور کسی نے گھر والوں سے چُھپ پر شادی کرنے کی اسٹوری بریک کی۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔طرح طرح کے الزامات لگاتا میڈیا پتہ نہیں کیوں اس حقیقت کو نظرِانداز کر رہا تھا کہ وہ ایک مر جانے والی لڑکی پر تہمتیںلگا رہا ہے۔ صورتحال واضع نہیںابتدائی تفتیش کی بنیاد پر ہی پوری کہانی گھڑ کر نشر بھی کردی آگئے بڑھنے اور بریکنگ کی دوڑ نے یہ بھی نہ سوچنے دیا کہ اُس کا گھر اُس کا خاندان کس ازیت سے گزر رہے ہوں گے،ان کی تکلیف میں اس طرح کی خبریں مزید کتنا اضافہ کردیں گی، اس کے بھائی کبھی اس معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے،اس کے بوڑھے باپ کی کمر تو پہلے ہی جھُک گی ہے اس طرح کی خبریں اس کو جینے بھی دیں گی یا نہیں؟ اس کی ماں کس کس کو صفائیاں دیں گی؟
News
پھر وہی ہوا۔۔میڈیا پر آنے والی خبریں دیکھ دیکھ کر میت گاؤں پہنچنے گاؤں والوں نے نہ صرف اپنے دلوں پر بلکہ گھروں میں بھی تالے لگا لیے۔ کوئی اس جوان موت کے دیدار کو نہیں آیا۔جنازہ اٹھا تو کندھا دینے والے کم پڑ گئے سوائے ماں کے کسی کی آنکھ نم نہ ہوئی۔ میڈیا کی گاڑیاں وہاں بھی پہنچ گئی ایکسکلوسیو کوریج کی گئی گاؤں والوں نے قبرستان میں دفن نہ کرنے دیا۔ جنگل میں قبر بنا کر دفنا یا گیا نہ جانے اس سارے واقعے میں کس کی کتنی غلطی ہے پتہ نہیں ؟ اس پر کیا بیتی مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد؟ اس معاشرے کے ناسوروںنے جو سلوک تہمینہ کے ساتھ کیا۔
اس معاشرے کا فرد ہونے پر مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے، کراہت آرہی ہے ایسے انسانوں سے جو نہ تو جینے دیتے ہیں اور نہ مرنے دیتے ہیں۔ میری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں تہمینہ ۔۔ اللہ تمھاری اگلی منزلیں آسان بنائے اللہ پاک کی زات جانتی ہے تہمینہ کی کہانی اُس کی سہلی زارا کی آئی ڈی سے پڑھنے پر بہت دکھ ہوا ہے۔ میرا تہمینہ یا مرحومہ مغفورہ کے خاندان یا اس کی کسی دوست سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں حتیٰ کے فیس بک پر بھی کوئی ADD نہیں ۔ اس کے باوجود ایک انسانیت اور امُت محمدیہ کا ناتا ہے، دعا ہے ، اللہ پاک مرحومہ کے کبیرو صغیراگناہ معاف فرماکر لواقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمارے جو صحافی بھائی ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحافت آگاہی اور مثبت تعمیروترقی کے لئے ہونی چاہیے۔