سہولت کار ؟

 Imran Farooq, Murder Case

Imran Farooq, Murder Case

تحریر: ایم آر ملک
شہر قائد کی تباہی کی قیمت پر اقتدار کا حصول اور ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کے خلاف ”بکواسیات ”در اصل سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ایک ہٹ دھرمی کا مجرمانہ طرز عمل ہے۔ محب وطن حلقے کئی روز پہلے چوہدری نثار کی طرف سے آنے والی اس وضاحت کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں جس میں عمران فاروق قتل کیس میں ایم کیو ایم کے لہُو کے چھینٹوں سے تر دامن کو دھونے پر تُلے ہوئے تھے۔

لندن میں مقیم راء کے ایجنٹ پر بحث سے قبل اُس پس منظر کا ادراک نہایت ضروری ہے جس کے تحت اُسے انسانیت کے قتل کا لائسنس ”ٹو کل ”ملا ۔پاک فوج کے خلاف زہر اُگلنے کی جسارت اور جرات ہوئی اب ان حقائق پر بحث لاحاصل ہے کہ ایم کیو ایم کو بھارت سے دہشت گردی کیلئے فنڈنگ ہوتی ہے یہ حقیقت تو 92ء میںعیاں ہو چکی ۔ہمیں ایکننگ ِوطن کی جرائت پر حیرت ہے جب وطن عزیز کی خاطر کٹ مرنے والوں کے خلاف ”بھونکا جارہا ہو ”تو حب الوطنی اپنے تقاضوں کا اظہار مانگتی ہے۔ وہ عوامل اور عواقب کیا ہیں ؟جس نے راء کے ایجنٹ کو جرات اظہار دی۔ کیا اُن قوتوں کی حب الوطنی پر کراس کا نشان نہیں لگتا جو ماضی میں ایک ملک دشمن جماعت کے ساتھ ”اقتدار ،اقتدار ”کھیلتی رہیں اور آج بھی بے تاب ہیں۔

مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کا وہ دور حکومت یاد آرہا ہے جب اُنہوں نے راء کے ایجنٹ اور لندن کے مکیں کی دہشت گردی کے آگے بند باندھنے کی کاوش کی مگر اُنہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اُنہوں نے راء کے ایجنٹ کے غنڈوں کے ٹارچر سیلز کی ایک فلم تیار کرائی اور اُس کی کاپیاں مرحوم سابق صدر غلام اسحاق خان اور اُس وقت کے کمانڈر انچیف مرزا اسلم بیگ کو روانہ کیں ۔صرف یہی نہیں اسلام آباد کے بہت سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے بھی ٹارچر سیلز کے دل دہلا دینے واقعات سے جو خوف محسوس کیا اُس سے وہ کئی روز تک نکل نہ پائے ۔محترمہ بھٹو اس کو پبلک میڈیا پر لانا چاہتی تھیں تاکہ پوری قوم ”راء کے ایجنٹ ”کی دہشت گردی سے واقف ہو مگر اسحاق خان نے اسمبلی تحلیل کر دی۔

MQM

MQM

پکا قلعہ حیدر آباد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں ناجائز اسلحہ کے خلاف آپریشن میں جب پولیس حتمی آپریشن کیلئے نکلی تو ایم کیو ایم کے غنڈوں نے معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کو ڈھال بنا کر بچوں کے پیچھے سے پولیس پر فائرنگ کردی ۔کراس فائرنگ کی زد میں آکر لاشوں کی بساط بچھی جس کا مقصد محض مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا تھا تب موجودہ وزیر اعظم پاکستان پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر متمکن تھے جنہوںنے متاثرہ خاندانوں کی امداد کے نام پر ایم کیو ایم کو پانچ کروڑ روپیہ گفٹ کیا جو کبھی بھی تقسیم نہ ہو سکا۔

کیا ہم آصف نواز جنجوعہ کے دریافت کردہ ٹارچر سیلز سے انکار کر سکتے ہیں۔ یہ خوفناک مناظر کی عکاسی تھی جس کا تصور ہمارے پردہ بصارت پر آج تک ثبت ہے ۔راء کے ایجنٹ کی ترجیحات سے اختلاف کرنے کی ہمت اور جرات دکھانے والوں کو اغوا کیا جاتا ،نجی عقوبت خانوں میں بے رحمی سے تشدد کے بعد موت کی آخری ہچکی کو کوئی بھی نہ سُن پاتا ،بلدیہ عظمیٰ کراچی جہاں راء کے ایجنٹ کے کارندوں کا راج تھا عقوبت خانوں میں مرنے والوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ان نجی ٹارچر سیلز سے ڈیتھ سر ٹیفیکیٹس کے لاتعداد بنڈل ملے ۔ راء کے ایجنٹ کی راء کے ساتھ منسوبیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ 1986ء میں سید غوث علی شاہ کے دورِ وزارت اعلیٰ میں جب الطاف حسین کو پیپلز پارٹی کے متوازی جماعت بنانے کا کام اُس وقت کے نام نہاد ”مرد ِ مومن ،مرد ِ حق ”نے سونپا تو موصوف پاکستانی پرچم جلانے کے جرم میں جیل میں تھے۔

کراچی کے ایک معروف سیٹھ جن کی سیمنٹ کے علاوہ مشروبات کی فیکٹری تھی سے 50,50لاکھ کے دو چیک ”مرد ِ مومن مردِ حق ”نے راء کے ایجنٹ کو دلوائے۔ کیا اُس وقت کے سیکریٹری داخلہ ایس کے محمود کی اُس تفصیلی رپورٹ سے کوئی محب وطن انکار کر سکتا ہے جو اُنہوں نے میاں نواز شریف کو پیش کی جب وہ وزیر اعظم تھے ۔یہ رپورٹ کیبنٹ کو بھی پیش کی گئی جس میں بڑی وضاحت اور ثبوتوں کے ساتھ ایم کیو ایم اور راء کے تعلقات بیان کئے گئے اِس میں ثبوت کے طور پر شواہد بھی بیان کئے گئے ایس کے محمود کی رپورٹ اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو بھی پیش کی گئی ،مشرف نے اپنے دور اقتدار میں راء کے ایجنٹ کی جس طرح سر پرستی کی اُس کیلئے 12 مئی 2007 کا واقعہ ہی کافی ہے۔

Altaf Hussain

Altaf Hussain

کیا یہ سارے لوگ راء کے ایجنٹ کے سہولت کار نہیں تھے؟
جناح پور کے نقشوں سے کون انکار کر سکتا ہے ؟جن میں کراچی ،حیدر آباد ،میر پور خاص ،نواب شاہ اور تھر پارکر کے علاوہ تمام ساحلی علاقوں کو دکھایا گیا محض اس مذموم مقصد کے پیش نظر کہ یہ سارے علاقے انڈیا کیلئے کھول دیئے جاتے ۔یہ ایک گھنائو نی ناکام خواہش تھی جس کا پس منظر ساحلی علاقوں سے محرومی کے بعد پاکستان کو ایک ”lanlocked”بنانا تھا۔ عین اُس وقت جب نائن زیرو سے ولی بابر اور بہت سے بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کو رینجرز کے نوجوانوں نے گرفتار کیا تو لندن سے راء کے ایجنٹ کی یہ بڑھک سنائی دی کہ ”جو ہیں وہ تھے ہو جائیں گے۔

سیاست کا ڈاکٹر” قاتلوں کے اس ٹولے کو جس کا سر پرست راء کا ایجنٹ ہے اپنی حکومت میں حصہ دار بنانے پر تُلا ہوا تھا۔ آج سرحد کا ایک مولوی جس کے جسم سے ڈیزل کی بُو آتی ہے اسمبلی میں اِس قاتل ٹولہ کی ہمنوائی میںپیش پیش ہے اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ راء کا ایجنٹ اِ س نہج پر کیوں پہنچا ؟کہ پاک آرمی کے خلاف وہ بائولا ہوا پھرتا ہے۔ یہ ساری طاقت اُسے اُن سہولت کاروں نے دی جن کے سامنے حب الوطنی سے زیادہ ذاتی مفاد زیادہ اہم تھا۔شہر قائد میں بے گناہ شہریوں کی لاشیں گرانے کے ذمہ دار سہولت کار ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک