فلپائن (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر میں سیاستدان دوسروں کی سوچ اور فعل کو اپنی منشا کے مطابق بنا کر پیش کرنے کے لیے پروپیگنڈا کا سہارا لیتے ہیں لیکن جمہوریتوں اور آمریتوں دونوں میں بڑی چالاکی سے کیے جانے والے اس عمل کا پتا کیسے چلایا جائے؟
2021 ء میں فلپائن کی صحافی ماریا ریسا کو فلپائنی ریاست کی پروپیگنڈا اور جھوٹ کے پھیلاؤ کی کوششوں کا مقابلہ کرنے پر امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ منیلا حکومت کی تازہ ترین چال بازیاں بھی اس امر کا ثبوت ہیں کہ ریاستی سرپرستی میں پروپیگنڈا کا استعمال دور حاضر میں پوری دنیا کو درپیش ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ایک بڑی مثال 2003 ء میں عراق پر امریکی حملہ بھی ہے۔ اُس وقت واشنگٹن حکومت نے عراق پر حملے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے امریکی عوام کو سراسر گمراہ کیا تھا۔
ریاست کے ایما پر پروپیگنڈا کے استعمال کی حکمت عملی دراصل کوئی نئی بات یا نیا رجحان نہیں بلکہ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی رہی ہے۔ نازی دور پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ نازیوں نے بھی جرمن عوام میں ایک مخصوص نظریے کو فروغ دینے کے لیے کس حد تک پروپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔ آج کے جدید دور میں ریاستیں اپنی پروپیگنڈا مشینری کا استعمال نہایت دقیق انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی کمپنی میٹا نے، جوپہلے فیس بک کے نام سے جانی جاتی تھی، حال ہی میں انکشاف کیا کہ اس نے نکاراگوا میں حکام کی طرف سے چلائی جانے والی غلط معلومات پر مبنی ایک وسیع تر مہم کو ناکام بنا دیا ہے۔ مزید یہ کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران نکاراگوا کے صدر ڈینیل اورٹیگا کی کامیابیوں کا جشن منانے اور اپوزیشن کو بدنام کرنے کے لیے متعدد ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا سہارا لیا گیا۔
جرمنی کی مثال گزشتہ ستمبر میں یوٹیوب نے روسی نشریاتی ادارے RT (ماضی میں Russia Today کے نام سے کام کرنے والا ادارہ) کے زیر انتظام کام کرنے والے جرمن زبان کے دو نیوز چینلز کو بلاک کر دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ان چینلز پر کورونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جارہی تھیں۔ آر ٹی کو عموماً روسی حکومت کا پروپیگنڈا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے دو محققین کی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اس روسی نشریاتی ادارے کا ایک مخصوص ایجنڈا یہ ہے کہ مغربی میڈیا کو جھوٹ سے بھر پور خبریں پھیلانے والی مشینری کے طور پر پیش کیا جائے۔
پروپیگنڈا کس طرح کیا جاتا ہے اور اس کا پتا کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ ان اور دیگر اہم سوالات کے جوابات کے لیے ڈوئچے ویلے نے چار مختلف ماہرین سے بات چیت کی۔
پروپیگنڈا کی تعریف ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے آرگنائزیشن فار پروپیگنڈا اسٹڈیز کے ماہر سیاسیات پیئرس روبنسن نے کہا کہ پروپیگنڈا کسی کو کسی خاص طریقے سے کام کرنے یا برتاؤ پر آمادہ کر سکتا ہے۔ اس کی مثال انہوں نے 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ کی طرف سے ملکی عوام پر اثر انداز ہونے کے لیے پروپیگنڈا مشینری کے استعمال کی دی۔ روبنسن کے بقول، ”واشنگٹن حکومت نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کا سبب بننے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں بہت بڑھا چڑھا کر انٹیلیجنس کو اطلاعات دیں اور اسے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔‘‘ مگر ہوا یہ کہ عراق سے کبھی بھی وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بننے والے ہتھیار نہ ملے۔ سی آئی اے نے ان ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے اور اس بارے میں پروپیگنڈا کرتے ہوئے غلط معلومات فراہم کیں اور تصاویر کے ذریعے انہیں سچ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔فیکٹ چیک: لاکھوں امریکی شہریوں نے کورونا ویکسین کی دوسری ڈوز کیوں نہیں لی؟
نیو کاسل یونیورسٹی کے اسکول آف آرٹس اینڈ کلچر سے منسلک سینیئر لکچرار فلوریان سولمان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اکثر جھوٹے دعووں اور پروپیگنڈا کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ یورپی پارلیمان کے ایک مطالعے سے بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ پروپیگنڈا قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور شہری حقوق کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
سیاسی پروپیگنڈا کے مقاصد روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ فار یو ایس اینڈ کینیڈین اسٹڈیز کے سینیئر ریسرچ فیلو پاویل کوشکن کے مطابق سیاسی پروپیگنڈا سیاست دانوں اور حکومتوں کو مثبت روشنی کے پیرائے میں ڈھالنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ کوشکن نے کہا، ”روس میں ریاست کے زیر اہتمام پروپیگنڈا کو روس کی جمہوری تصویر کشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں سیاسی پروپیگنڈا کا مقصد دوسرے ممالک اور ان کی ثقافتوں یا اقدار کو بدنام کرنا بھی ہوتا ہے۔ میڈیا ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کا ایک مطالعاتی جائزہ مثال کے طور پر جارجیا میں میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے مغرب مخالف پیغامات کو دستاویزی طور پر ریکارڈ کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پروپیگنڈا امور کے ماہر روبنسن کے بقول پروپیگنڈا صرف روس، چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک ہی نہیں کرتے۔ اس کا استعمال پوری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ رابنسن کہتے ہیں، ”میرے خیال میں جمہوریتوں میں ہمیں جس مسئلے کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پروپیگنڈا بہت زیادہ ہوتا ہے ، لیکن ہم اس کی شناخت نہیں کر پاتے۔‘‘
فلوریان سولمان نے بھی اس امر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ”پروپیگنڈا جرمنی اور امریکا میں بھی ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے اس کی نشاندہی بھی کی۔ سولمان کے مطابق یہ آمریتوں اور جمہوری ریاستوں دونوں کی طرف سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ان کا تاہم کہنا تھا کہ آزادانہ طور پر متبادل ذرائع ابلاغ اور معلومات تک رسائی جمہوریتوں میں سیدھے سادے طریقے سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔
میڈیا کا کردار کرسٹیان میہر کا تعلق رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نامی تنظیم سے ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میڈیا تنظیمیں پروپیگنڈا پیغامات کو پھیلانے اور بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر روس کے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے نشریاتی ادارے RT پر اکثر کریملن کے ‘ماؤتھ پیس‘ کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس کی کوریج بڑی حد تک روسی حکومت کے سرکاری موقف کی عکاسی کرتی ہے۔ پولش پبلک ٹیلی ویژن (PVP) پر اسی طرح پی آئی ایس نامی پارٹی کی قیادت والی حکومت کی تعریفوں کے لیے پروپیگنڈا تکنیک بروئے کار لانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا میڈیا ادارے فعال طور پر پروپیگنڈا پھیلا سکتے ہیں یا ایسا نادانستہ طور پر اور غلطی سے ہوتا ہے، روبنسن کا کہنا ہے کہ مثالی حالت میں وہ نگہبانی بھی کام کرتے ہیں اور پروپیگنڈا کو ختم کرتے ہیں۔
میڈیا محققین کا کہنا ہے کہ یہ در حقیقت صحافیوں سے متوقع سب سے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ RSF کے کرسٹیان میہر نے کہا کہ صحافی قانون سازوں سے سخت سوالات پوچھ کر اور آزاد ماہرین سے انٹرویو کر کے سیاسی پروپیگنڈا کے سیاق و سباق یا مفہوم کو واضح کرنے کے لیے مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سیاسی پروپیگنڈا اکثر نہایت لطیف ہوتا ہے تاہم اس کے باوجود اس کی تشخیص کے کئی طریقے موجود ہیں۔ ایسے پروپیگنڈا کی نشاندہی کے لیے مندرجہ ذیل چیک لسٹ مفید ثابت ہو سکتی ہے:
1۔ فیک نیوز کو کیسے پہچانا جائے؟
2۔ رد و بدل اور ایڈیٹنگ سے تیار کردہ تصاویر کی پہچان کیسے کی جائے؟
3۔ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، خودکار بَوٹس اور ٹرولز کو کیسے پہچانا جائے؟