حکومت پاکستان نے کلبھوشن اور دوسرے دہشت گردوں کی رہائی کا نیا آرڈی نینس جاری کر دیا ہے اب کلبھوشن اور دوسرے دہشت گردوں کو رہا کر دیا جائے گا یہ پروپیگنڈہ اپوزیشن خاص طور پر بلاول زرداری کی طرف سے زور شور سے جاری ہے کیونکہ نواز شریف کے لبوں پر تو کبھی کلبھوشن کا نام بھی نہیں آیا بلکہ اس مسلے پر بھی مسلہ کشمیر کی طرح مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی تو اب کس منہ سے وہ بولے اس لیے بلاول کو فرنٹ پر رکھا گیا ہے یہ جس طرح مٹھائی کھانے میں جلدی کرتے ہیں اسی طرح منفی پروپیگنڈہ کرنے میں بھی دیر نہیں کرتے ،جبکہ اصل خبر کچھ اور ہے جس کے لیے تقریبا ایک سال پیچھے جانا پڑے گا پاکستان کی ملٹری عدالت نے جب کلبھوشن کو سزائے موت سنا دی۔
تو انڈیا کی طرف سے سخت رد عمل آیا انڈیا کا کہنا تھا کہ ہمارے شہری کو ایران سے اغوا کر کے پاکستان لے جایا گیا اور اب اسے دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
انڈیا کلبھوشن کیس کو عالمی عدالت لے گیا ان مطالبات کے ساتھ کہ نمبر ١کہ پاکستان کی فوجی عدالت کی کلبھوشن کو سنائی گئی سزا کو ختم کیا جائے نمبر ٢پاکستان کو کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرامد سے روکا جائے نمبر ٣ کلبھوشن کو انڈیا واپس بھیجا جائے
جس کے جواب میں انٹر نیشنل کورٹ نے جولائی 2019میں اپنے فیصلے میں نہ تو کلبھوشن کی سزا ختم کی نہ پاکستان کو سزا پر عملدرامد روکنے کا کہا صرف ملتوی کرنے کا کہا اس وقت تک جب تک پاکستان انٹر نیشنل کورٹ کے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36کے تحت کلبھوشن کیس کی سول عدالتوں سے نظر ثانی کی اپیل پر کاروائی نہ کرے واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ویانا کنوینشن کے ممبر ہیں اس لیے اس فیصلے میں انڈیا کو بھی ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36کے تحت کلبھوشن تک کونسلر رسائی اور پاکستان سول لاء کے تحت سول کورٹس میں ریویو یعنی نظر ثانی کی اپیل کا حق دیا گیا جس کا مطلب ہے انٹر نیشنل کورٹ نے ملٹری کورٹ کی سزا بھی برقرار رکھی اور صرف سول عدالت میں نظر ثانی کا حق دیا نظر ثانی کیس میں عموما فیصلہ برقرار ہی رہتا ہے سوال یہ ہے کہ نیا صدارتی آرڈی نینس کیوں آیا ؟اس کی ضرورت کیوں پڑی ؟انٹر نیشنل کورٹ کے پہلے حکم یعنی کونصلر رسائی پر عملدرامد کیا جا رہا ہے جو ہندوستان بالکل بھی نہیں چاہتا کیونکہ ہندوستان کو پتہ ہے کہ پاکستان ساری شرائط پوری کر کے کلبھوشن کو لٹکا دے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے نہ سیاسی دبائو او ر نہ بین الاقوامی دبائو کا آپشن رہے گا ہمارے پاس ۔۔۔ یہی وجہ ہے انڈیا نے کونسلر رسائی کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔
صدارتی آرڈی نینس اس لیے بھی آیا کیونکہ ہمارے ملٹری کورٹس کے لیے جاسوسی کے حوالے سے قانون سازی اس طرح ہوئی ہے کہ انہیں سول کورٹس میں چیلنج یا ریویو نہیں کیا جا سکتا اس لیے کلبھوشن کے کیس کو انٹر نیشنل کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تقریبا تین یا چھ ماہ کے لیے صدارتی آرڈینینس پاس کر کے سول عدالت میں لانے کی شرط پوری کی گئی یہ آرڈی نینس چھ ماہ بعد خود بخود ختم ہو جائے گا دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انڈیا کلبھوشن کے کیس کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کیلیے کوئی وکیل نہیں لے رہا انڈیا کی شرط یہ ہے کہ کلبھوشن کا کیس انڈیا کا وکیل پاکستانی عدالت میں لڑے گا جبکہ پاکستان کہتا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں آپ پاکستان کا کوئی وکیل لے لیں پھر بے شک اپنی لیگل ٹیم اس کی مدد کے لیے بھیج دیں لیکن ہندوستانی وکیل پاکستانی عدالت میں کیس نہیں لڑ سکتا وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی عدالت میں کیس کی پیروی کے لیے وکیل کے پاس لائسنس کا ہونا ضروری ہے جو ہندوستانی وکیل کے پاس ہونا ممکن نہیں مختصراً یہ کہ انٹر نیشنل کورٹ کے یہ دو احکامات پاکستان صرف علامتی طور پر پورا کر رہا ہے اس کے بعد کلبھوشن کو پھانسی بھی ہوگی انڈیا نہ اقوام متحدہ جا سکے گا نہ کسی اور فورم پر آواز اٹھا سکے گا صرف تماشہ دیکھے گا جبکہ پاکستان اگر انٹر نیشنل کورٹ کے احکامات کے خلاف پھانسی دیتا ہے تو سیاسی ،سفارتی دبائو اور ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوسکتا ہے جس وجہ سے انڈیا اپنے طور پر کلبھوشن کی دہشت گردی کے الزام سے بھی نکل جائے گا اور الٹا پاکستان پر دبائو بھی بڑھائے گا ،ان لفافوں اور جعلی لیڈروں سے درخواست ہے اپنی سیاست چمکانے کے لیے غلط الزامات اور منفی پروپیگنڈہ بند کریں۔
ایک ایسے وقت میں جب طاقت کا توازن ہر گذرتے دن کے ساتھ بدل رہا ہے طاقت کے تیزی سے بدلتے عالمی رحجانات میں چھوٹی طاقتیں بڑی طاقتون کے ساتھ مل کر اپنے آپ کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں ابھی حال ہی میں بھارتی بحریہ نے امریکی بحریہ کے ساتھ مل کر بحر ہند میں جنگی مشقیں شروع کی ہیں بد قسمتی کی بات ہے کہ بھارت امریکی بحریہ کے ساتھ مل کر خود کو مضبوط کر رہا ہے اور پاکستان میں کچھ شر پسند عناصر اسی دوران اپنے ہی دفاعی اداروں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں گو کہ ایسی کوششیں ہمیشہ ہی نکام ہوتی ہیں مگر پھر بھی پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کیوں خود کو پاکستانی کہنے والے لوگ دشمن کا ایجنڈہ پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں حالیہ مثال صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے ڈرامہ کی ہے جو قومی دفاعی اداروں پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا بھرے بازار میں کیمروں کے سامنے اغوا کا ڈرامہ اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کردار کشی کی منظم تحریک شروع کرنا اور اس کے بعد مطیع اللہ جان کا رات گئے اچانک سامنے آ کر اس ڈرامے کا خود ہی اینڈ سین کر دینا دشمن کی چالوں کو واضح کر رہا ہے۔
پاکستانی دفاعی اداروں کے لیے ایسی منظم مہم پہلی بار نہیں شروع ہوئی بلکہ وقتا فوقتا ایسی مذموم سرگرمیاں ملک دشمنوں کے ایما پر جاری رکھی جاتی ہیں اور عوام ایسے لعنتی کرداروں کو اچھی طرح جان چکی ہے کردار کشی کے اس گھنائونے کھیل کو آزادی اظہار کا نام دیا جاتا ہے یہ گندہ کھیل پاکستان کے علاوہ کہیں اور نہیں کھیلا جاتا چین سے بری طرح مار کھانے کے باوجود بھارت میں فوج اور خفیہ اداروں کے خلاف کوئی کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود بھارتی میڈیا کبھی اپنی فوج اور دفاعی اداروں کے خلاف بات نہیں کرتا نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کی تمام بڑی طاقتوں مثلا روس ، چین ، فرانس،جرمنی ،اٹلی ،اسٹریلیا وغیرہ میں بھی آزادی اظہار کے نام پر اپنے ہی دفاعی اداروں کے خلاف زہر نہیں اگلا جاتا امریکہ اور برطانیہ کا میڈیا بھی اس معاملے میں زمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ہر تھوڑے عرصے بعد اپنے خفیہ اور دفاعی اداروں کے خلاف کردار کشی کی مہم منظم انداز میں شروع کر دی جائے۔
حالانکہ یہ تمام ممالک اپنے تئیں آزادی اظہار اور جمہوریت کے چمپیئن ہیں ان تمام ممالک میں بھی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سیکورٹی پالیسی اپنی مرضی سے بنواتی ہیں اور ملکی پالیسیوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں لیکن سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اس اثر رسوخ کو روس ،چین ،یورپ امریکہ اور برطانیہ جیسی طاقتوں میں بھی کبھی غلط نہیں سمجھا گیا بلکہ ان ممالک میں سیکورٹی فورسز کے متحرک کردار کو سراہا جاتا ہے واحد پاکستانی میڈیا ہے جہاں سیکورٹی فورسز کے اداروں کو گالی دینا ثواب سمجھا جاتا ہے پچھلے دس سالوں میں بھارت اربوں روپے کا اسلحہ خرید چکا ہے اور مزید اربوں روپے کے اسلحہ کی خرید و فروخت کر رہا ہے دوسرے ملکوں کے ساتھ کیے گئے بھارت کے دفاعی معاہدے اور جنگی مشقیں اس کے علاوہ ہیں دشمن ملک میں اپنی سپاہ کو مضبوط کرنے کا عمل پچھلے دس سال سے جاری ہے جبکہ یہاں اپنی فوج کے خلاف گھنائونی سازشیں کرنے کا عمل جاری ہے اور ان کو شر پھیلانے سے فرصت ہی نہیں مل رہی جیسے اپنی فوج نہ ہو دشمن کی فوج ہو !