تحریر : شیخ توصیف حسین آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دولت کے آ جانے سے انسان کی حیثیت تو بدل جا تی ہے لیکن اوقات نہیں چو نکہ انسا ن کی او قات کا اندازہ اُس کے کردار سے ہوتا ہے اور کردار کا اندازہ اُس کے بلڈ سے ہو تا ہے آپ یقین جانے کہ انسان ہو یا حیوان اس کے کرادر کا تعلق اُس کے بلڈ سے ہو تا ہے جس کی چند ایک مثا لیں میں اپنے قارئین اور بالخصوص اس ملک کے حاکمین کی نظر کر رہا ہوں روم ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جب رومی حاکم کسی شخص کو موت کی سزا سناتے تو اُسے قلعہ نما گرائونڈ میں بھوکے شیر کے سامنے ڈال دیتے جس کی درد ناک موت کا نظارہ نہ صرف حاکم وقت بلکہ دیگر ارباب و بااختیار از خود اپنی آ نکھوں سے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن حاکم وقت نے ایک ایسے شخص جو کہ ان کا غلام تھا لیکن ان کے ظالمانہ رویہ سے دلبر داشتہ ہو کر جنگل کی طرف راہ فرار اختیار کر گیا تھا کو کافی عرصہ کے بعد جنگل سے پکڑ کر سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے اُسے قلعہ نما گرائو نڈ میں حسب عادت بھوکے شیر کے سامنے ڈال دیا جس کو دیکھتے ہی بھو کا شیر دھاڑے مارتا ہوا اس کی جا نب بڑی تیز رفتاری کے ساتھ لپکا لیکن اُس شخص کے قریب آ کر بیٹھ گیا اور اُس کے پائوں کو چاٹنے لگا جس کودیکھ کر حاکم وقت کو بہت غصہ آ یا اور اس نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھوکے چیتے کو یہاں لا کر اس شخص پر چھوڑ دیا جائے جب سپاہیوں نے بھوکے چیتے کو وہاں لا کر اُس شخص پر حملہ کرنے کیلئے چھوڑا تو وہاں پر مو جود شیر نے چیتے پر حملہ کر کے چیتے کو موت کے گھاٹ اتار دیا ان حالات کو دیکھتے ہوئے حاکم وقت نے اُس شخص سے پو چھا کہ بھوکے شیر کی آپ پر حملہ نہ کر نے کی وجہ کیا ہے جس پر اُس شخص نے حاکم وقت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب میں یہاں سے فرار ہو کر جنگل میں پہنچا تو اُس وقت یہی شیر شدید زخمی ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی مدد کیلئے دھاڑیں مار رہا تھا جس پر میں نے اس کے زخموں کا علاج کیا جس کے نتیجہ میں یہ تندرست ہو کر اپنے معمول کی زندگی گزارنے لگا۔
آج جب آپ نے مجھے اس بھوکے شیر کے سامنے ڈالا تو اس نے مجھے پہنچا نتے ہوئے اُس احسان کے بد لے مجھ پر حملہ نہیں کیا بلکہ مجھ پر حملہ کر نے والے چیتے کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرآپ اپنے گھر میں کسی سانپ کی پرورش بڑے پیارومحبت سے کریں تو یقینا جب بھی اسے موقع ملا وہ آپ کو یا آپ کے اہلخانہ کو ڈسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا تو یہ ہوتا ہے اپنے اپنے بلڈ کا اثر بالکل اسی طرح آج وطن عزیز میں متعدد آ فیسرز ملک وقوم کی خدمت کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں جبکہ لا تعداد آ فیسرز ملک وقوم کے ساتھ ساتھ اپنے ماتحت عملہ پر ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں بہاولپور کے ایماندار اور فرض شناس ہیڈ کانسٹیبل دین محمد کو وہاں کی انتظامیہ نجانے کس مصلحت کے تحت سات ماہ کی تنخواہ دینے میں قاصر رہی جس کے نتیجہ میں مذکورہ ہیڈ کانسٹیبل کے بچوں کا نام فیس نہ دینے کے پاداش سکولوں سے خارج کر دیا گیا جبکہ واپڈا حکام نے بروقت بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ ہو نے کے سبب گھریلو بجلی کا میٹر کاٹ دیا۔
جبکہ مذکورہ ہیڈ کانسٹیبل کا دیگر اہلخانہ بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا تو مذکورہ ہیڈ کانسٹیبل نے ان حالات سے دلبر داشتہ ہو کر اپنے ارباب و بااختیار کے اس گھنائو نے اقدام کے خلاف احتجاج کیا جو کہ اس کا بنیادی حق ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اس کے ارباب و بااختیار نے اس کے دکھوں کا مداور بننے کے بجائے اُسے شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بند سلاسل کر دیا یہی کافی نہیں بلکہ مذکورہ ہیڈ کانسٹیبل کے بھائی کو بلاوجہ معطل کر کے نہ صرف قانون کی دھجیاں اُڑا دی بلکہ انسانیت کی بھی تذلیل کر ڈالی آج اگر ہم حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو محکمہ پولیس میں سب سے زیادہ فرض شناسی کا مظاہرہ جس قدر کانسٹیبل ہیڈ کانسٹیبل اور اے ایس آئی تک کہ اہلکار ادا کر نے میں مصروف عمل ہیں اس قدر ارباب و بااختیار نہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مذکورہ عملہ دہشت گردوں مفروروں ڈاکوئوں اور قاتلوں کے علاوہ جتنے بھی قانون شکن افراد ہیں اُن کی گرفتاری میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پیش پیش رہتے ہیں در حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ اہلکار دن ہو یا رات اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کر نے میں مصروف عمل ہیں جبکہ سینئر افسران اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگائو اور مال کمائو کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کر نے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں آج وطن عزیز کا ہر تھانہ کرپشن کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں غریب مظلوم افراد عدل و انصاف سے محروم ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
Persecuted
در حقیقت تو یہ ہے کہ آپ سینئر افسران جس میں انسپکٹر سے لیکر اوپر تک ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں یقینا آج وطن عزیز کے تھانوں میں اعلی افسران تھانوں میں کرپٹ ترین سب انسپکٹروں کو انچارج جبکہ ایماندار انسپکٹروں کو انویسٹی گیشن کے عہدوں پر تعنیات کر کے قانون کی دھجیاں اُڑا نے میں مصروف عمل ہیں اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو آج پولیس لائنوں میں ایماندار اور فرض شناس انسپکٹروں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں تھانوں میںغریب اور بے بس مظلوم افراد کو انصاف کا ملنا بس ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج وطن عزیز کے تمام اضلاع کے مال خانوں میں جہاں پر آئے روز بھاری مقدار میں منشیات جس میں چرس افیون ہیروئن دیسی و ولایتی شراب وغیرہ سر فہرست ہیں کے علاوہ غیر قانونی طور پر پکڑے جانے والا جدید اسحلہ جمع کروایا جاتا ہے کا نام و نشان تک نہیں ملتا شنید ہے کہ یہ اعلی افسران غیر قانونی طور پر پکڑی جانے والی مذکورہ منشیات اور جدید اسحلہ قانون شکن افراد کو فروخت کر دیتے ہیں جبکہ اس کی جگہ خود ساختہ تیار کی گئی منشیات اور ناقص قسم کے اسحلہ کو وہاں رکھ دیتے ہیں۔
یہی کافی نہیں کہ بعض پولیس افسران اپنی کرپشن اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے مال خانوں میں رکھی ہوئی منشیات بے گناہ افراد پر ڈال کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کو دیکھ کر نہ صرف قانون بلکہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کے اس گھنائونے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس شخص کو ناکردہ جرائم میں ملوث کر کے بند سلاسل کر دیتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جھنگ کے ایک عامل صحافی لیاقت علی شام جس نے ہمیشہ بھوک اور افلاس کا دلیرانہ مقابلہ کر کے غریب اور بے بس مظلوم افراد کی آواز کو ارباب و بااختیار تک پہنچانے کیلئے اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کر نے میں مصروف عمل رہا ہے نے تھانہ کوتوالی جھنگ کے انچارج کے کالے کرتوتوں اور نااہلی کو اپنے ٹی وی چینل دنیا پر نشر کیا تو تھانہ کوتوالی کے انچارج میاں عابد نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے مذکورہ صحافی کے خلاف جھوٹ پر مبنی اور بے بنیاد مقدمہ درج کر کے قانون کی دھجیاں اُڑا دی۔
جس کے اس گھنائونے اقدام کو دیکھ کر نہ صرف قانون بلکہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک گیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لہذا حکومت وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بالخصوص وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف گورنر پنجاب کے علاوہ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس مشتاق احمد سکھیرا کو چاہیے کہ وہ انسانیت کی بقااور قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کیلئے اپنی گو نا گو مصروفیات سے وقت نکال کر مذکورہ صحافی کے خلاف درج کیئے گئے مقدمہ کی انکوائری کسی بھی ایماندار اور فرض شناس آ فیسر سے کروا ئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سپیروں نے یہ سوچ کر سانپوں کو بند کر دیا ٹوکریوں میں کہ اب انسان ہی کافی ہیں انسانوں کو ڈسنے کیلئے