تحریر: محمد وقار بٹ سوات کی وادی سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی جس پر 9 اکتوبر 2012 کو دہشتگردوں نے حملہ کیا جب وہ اسکول وین کے ذریعے گھر واپس جارہی تھی، سکیورٹی اہلکاروں نے اسے ہسپتال منتقل کیا جب سہولیات میسر نہ آئیں قوم کی یہ بیٹی موت کے منہ میں چلی گئی اور ڈاکٹروں نے صلاح دی کہ اس کا علاج لندن میں ممکن ہے تو گل مکئی کو سرکاری ذرائع استعمال کر کے لندن منتقل کر دیا گیااس حملے کوہوئے کچھ دن پہلے پورے تین سال بیت گئے ہیں۔
امریکا کی تمام اہم شخصیات کے مذمتی بیانات کا نہ تہمنے والاسلسلہ شروع ہوا دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ پذیرائی پا چکی تھی اسے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جانے لگا تھا اسے نمایاں طور پر امن کی سفیرظاہر کیا جا رہا تھا امریکی ملالہ کے ساتھ ہونے والے سانحے پر افسوس کر رہے تھے ملالہ کو بین الاقوامی سطح تک پروموٹ کیا جا چکا تھا ۔ملالہ پر جب حملہ ہوا اس وقت ملالہ کی سہیلیاں کائنات اور شازیہ بھی اس کے ہمراہ تھیں جو معمولی زخمی ہوئیں ملالہ نے کوئی عظیم الشان کارنامہ نہیں کیا ؛نہ ہی کسی بھی شعبے میں پیشہ ورانہ صلاحتیںپیش کیں اور کسی نجیب کام میں اعانت کی۔ ایک مقولہ بہت عام ہے” پتر محنت کر حسد نہ کر” ملالہ مجھے تم سے عنادو بغض نہیں ہے لیکن تم نے تعلیمی میدان میں بھی کوئی غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھائی ہے ، کوئی پوزیشن ہولڈر نہیں ہو ہاں تعلیم کے فروغ کے لئے ایجنڈاا چھاتھا اور اسے غیور پسندی سمجھا جانا چاہیے لیکن بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھالیکن مغرب نے تمہیں اپنے اشاروں پر چلا نا شروع کر دیا۔
ملالہ کے والد محترم نے مینگورہ میں ایک این جی او کھول رکھی ہے یہ فرد ایک سکول نیٹ ورک کا مالک بھی ہے اس شخص کا نام ضیاء الدین یوسفزئی ہے یہ وہی ہے جو ماضی میں پاکستان مخالف نعرے لگاتا رہا ہے، ریاست سے بغاوت پر لوگوں کو اکساتا رہا ہے ۔ملالہ کو دیا جانے والا پروٹوکول خود اس چیز کا عکاس تھا کہ ضرور امریکہ اس بچی کو اپنی شاطرانہ چال چلنے کے لئے اتنی اہمیت دے رہا ہے ورنہ ڈرون حملوں سمیت امریکا کی دیگر کاروائیوں میں کتنے ہی پھول اور کتنی ہی کلیاں مرجھا جاتی ہیں تب تو امریکا کا اس جانب خیال نہیں جاتا ،تو اس بچی سے اتنا لگاوُ کیوں؟ محض ملالہ کومغربی اشیرآبادحاصل ہے مگر ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والی دوسری بچیوں کی زندگیاں تباہ کرنے والے امریکہ کو اس وقت تو انسانیت یاد نہیں رہتی؟ جب وہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر چپ سادھ لیتا ہے اور اپنے باس کا حوصلہ بڑھاتا ہے کتنے ہی گھر اجڑ جاتے ہیں شام میں ننھے پھول مسل دئیے جارہے ہیں خانہ جنگی ہے وہاں ہمدردیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟۔ اسلامی مساوات کا پاس رکھنے والی بیٹیوں کے والدین ان سے چھن جاتے ہیں وہ معذور ہوجاتی ہیں، مذموم کاروائیوں میں بے قصور بچیوں کے چیتھڑے اڑائے گئے ہیں ۔ملالہ کی کتاب” آئی ایم ملالہ” پر جب تنقید کی گئی تو ضیاء الدین یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کتاب میں نبی ۖ کے نام کے ساتھ PBUH نہ لکھا جانا غلطی ہے جسے آنے والے نئے ایڈیشن میں کاوُنٹر لرلیا جائے گا اور سلمان رشدی گستاخِ رسول ہے کتاب میں ملالہ نے اسے آئیڈیل نہیں قرار دیا بلکہ وہ کرسٹینا لیمب کی اپنی رائے ہے کہ ہر کسی کے پاس آزادیِ رائے ہو۔
کریسٹینا لیمب کے ہمراہ تم اور تمہاری والدہ ایسا کیا سکون محسوس کرتے ہو جو پاکستان کی خواتین کے ساتھ رہ کر نہیں ملتا۔ملالہ پاکستان میں باشعور حلقے تمہاری کتاب کا بائیکاٹ کر چکے ہیں، کتاب کا نیا ایڈیشن نہیں آیا تمہارے والد نے یہ سب سوالات کی بوچھاڑ کو روکنے کے لیے کہا وہ بہت لبرل ہیں انہوں نے مغرب سے فوائد حاصل کرنے ہیں انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ تمہاری شائع شدہ کتاب کتنی غلطی پر محیط ہے۔ میری ناقص وسعت یہ کہتی ہے دراصل کتاب ہے ہی کرسٹینا لیمب کی ملالہ کے نام کا لیبل لگانے سے مقصود ہے کہ دنیا کو پتہ چلے کہ اس ملک میں رہنے والے کتنے بے بس اور لاچار ہیں اور اپنے وطن سے تنگ ہیں مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہیں اس کتاب میں تاریخ سے لاتعلقی اختیار کی گئی ہے اغیار نے سنی سنائی باتیں بے مصدقہ حقائق درج کیے ۔سوال ابھی بھی وہی ہے کہ گیارہ سالہ ملالہ کیسے ایک ڈائری ترتیب دے سکتی ہے؟
Malala Yousafzai Book
انگریزی لکھنے میں مدد کون کرتا تھا ؟ با آسانی بی بی سی تک اس ڈائری کی رسائی کیسے ممکن ہوئی؟۔ ملالہ کا باپ طے شدہ منشور کے تحت ملالہ کو ملک کے وقار مخالف انگریزی اسپیچ یاد کرواتا تھا اسی نے ہی ڈائری لکھی جسے اپنے وسائل بروُئے کار لاتے ہو ئے عالمی میڈیا تک جا پہنچایا تاکہ تمہیں مقبولیت حاصل ہو۔مغرب پاکستان کو مورودِ الزام ٹھہرانے میں ماہر ہے اور ان سب الزمات کی دقیانوسی وکالت آئی ایم ملالہ کتاب میں کی گئی ہے یہ ملالہ وہ ہی ہے جو شرمین عبید چنائے کو داد دیتی ہے جو فیم پانے کی خاطر اخلاقیات بھول گئی۔
ملالہ اپنی کتاب میں بتاتی ہے کہ کیسے طالبان نے لوگوں کا جینا محال کر رکھا تھا اور نا مسائد حالات بنا رکھے تھے لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف مہم شروع کر رکھی تھی انہیں بار بارذہنی طور پر ہراساںکیا جاتا رہا کہ وہ سکول ،کالجوں میں نہ جائیں ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ، مزید اس میں قیاس کردہ باتوں کا مجموعہ ہے۔ ایساپرچار جو پاکستان کے سارے منظر کو بہت ہولناک پیش کرتا ہے ملالہ نوبل ایوارڈ کے لیے جب نامزد ہوئی تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی بلکہ میں مطمئن تھا کہ مغرب کی حیثیت ہی نہیں کہ وہ ہمارے ملک میں انسانیت کے خدمت گزاروں،احتراز گزاروں کو کوئی ایوارڈ دے نہ ہی انہیں اس کی کوئی حاجت ہے پوری قوم ان کے نیک کاموں سے مشرف ہے آخر عبدالستار ایدھی کی موجودگی میں ایک نو عمر بچی کو کیونکر امن نوبل ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے؟۔
ملالہ تم اقوامِ متحدہ میں ایڈوائزر ہو تم نے بشریت کو فلاح پہنچانے اور تباہی سے بچانے کے لیے کیا کیا؟ملالہ چار باتیں کر لینے سے کوئی امن کا علمبردار نہیں ہو جاتا تم برمنگھم میں عیش و عشرت والی زندگی کو چھوڑنے پر راضی ہی نہیں ہو تمہاری سیکیورٹی بڑھائی جا چکی ہے پروٹوکول تمہاری سچ ہوتی حسرت بن گیا ہے ۔دس دسمبر 2014 کو ملالہ یوسفزئی ایوارڈ پاچکی ایوارڈ تقریب سے قبل اس بچی نے غیررسمی گفتگو میں وہاں موجود لوگوں سے اپنے وزیرِ اعظم بننے کی خواہش کا اظہار بھی کیا اس سے پہلے ملالہ لفظوں سے امن کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے اور لاعلم لوگ یہ سوچتے ہیں کے ملالہ کی جدوجہد کے باعث امن سربلند ہوا ،انہوں نے کیوں اپنی قوتِ بینائی گنوا دی ہے کیا انہیں عام ہوتے سانحات نظر نہیں آتے کیا خواتین مساوی حقوق پا چکی ہیں اور نام نہاد جدوجہد کارگر ثابت ہوچکی ہے؟۔
ملالہ تم جن کے ہاں پاکستان کی برائیاں کرتی ہو کیا تمہیں ان کی درندگی نظر نہیں آئی ؟ تم نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ایک بار بھی کوشش کی ہے؟۔ملالہ تم نے بہت پُر ملال کیا ہے ان کے ہاتھوں کھیل کر میں گھسی پٹی باتیں نہیں کروں گا کہ تم سی آئی اے کی ایجنٹ ہو نہ ہی کوئی مفروضہ پیش کروں گا ،مگر ظاہر ہے انہوں نے تمہیں نوازا ہے تم سے اس کے فوائد تو لیں گے؟ عنقریب تم ان کی تعریف بھی کرنے لگو گی ان کی نوازشات ایوارڈز کی صورت میں تم سمیٹتی رہی ہو جب کہ تم نے کوئی قابلِ ستائش کام نہیں کیا جو تم ان کی حقدار کہنے کے قابل کہی جا سکو۔انسانی حقوق کے استحکام کے لیے سب کو کوششیں کرنا ہونگیں آواز بلند کرنا ہوگی۔ملالہ تم بہت بھولی اور معصوم ہو میری بہن کی طرح ہوروشنی کی کرن ہو مگر معاف کرنا تم مخالف قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہو تم ان سے مراعات لے رہی ہو تم ان کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہو۔میں نہیں مانتا کے اس سب دہشتگردی کے پیچھے کوئی مسلمان ہیں یہ امریکن پیڈ دہشتگرد تنظیمیں ہیں جن کی مبالغہ آرائی کے ساتھ تشہیر کی جارہی ہے یہ طالبان امریکن ہیں درِحقیقت یہ وہ مرتدین ہیں جنہیں دشمن نے اسلام کا لبادہ اوڑھا دیا ہے وہ کیسے اپنے آپ کو جہادی کہتے ہیں۔
جب وہ رسولِ پاکۖ کی حدیث جس کا مفہوم ہے”علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے ”سے منحرف ہوں جو تعلیم پر قدغن لگاتے ہوں جن کے ذہن اسلام کی آمد سے پہلے جیسے پسماندہ ہوں کیسے سمجھ لیا جائے کہ وہ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں جب وہ رسول اللہ کے فرمان”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے” سے منکر ہو جائیں۔ دہشتگردی کو پروان چڑھاتے ہوئے کتنی پیچید گی قائم کردی کہ گروپس آپس میں ہی گتھم گتھا ہیں اور بعض تو امریکہ کے لیے ہی خطرے کی گھنٹی ثابت ہورہے ہیں مختلف رنگ روپ ،نسل اورلسانیت والے دہشتگرد تو تھے ہی اب فرقہ ورانہ دہشتگردی بھی منظرِعام آچکی ہے ۔پاکستانی وزیرِاعظم نے اپنے حالیہ کامیاب امریکی دورے سے واپسی کے وقت تمہارا تذکرہ کیا اور مجھے شدید تعجب محسوس ہوا ، چند لوگ کہتے رہے وہ تم سے ملاقات کے لیے نہیں آئے بھئی تم کیسے اتنی جاذبِ توجہ ہوگئی ؟ وہ ملک کا زیرک وزیرِاعظم اپنی جرأت مندانہ تقریر کرتا یا تم سے ملاقات کرتا؟،خیر اقوامِ متحدہ میں اس دفعہ سہی معنوں میں کوئی بشریت کی گویائی کی حامل تقریر تھی تو وہ روسی صدر پیوٹن کی تھی۔