تحریر : ریاض احمد مغل میں کون ۔۔۔۔عامل تو کون ۔۔۔۔معمول عامل۔۔۔۔جو کچھ پوچھوں گا بتلائے گا۔ معمول۔۔۔۔ بتلائوں گا عامل۔۔۔۔ گھوم جا معمول ۔۔۔ گھوم گیا عامل۔۔۔۔ کیا دیکھ رہا ہے معمول۔۔۔۔۔اپنا گراں ہووے طوطاں دی چھاں ہووے وانڑ دی منجی ہووے تے سر تھلے باہں ہووے جتنے دیہاڑے جیواں خوشیاں دا ثانی تھیواں لسیاں تے دودھ پیواں کِلے اُتے گاں ہووے ۔۔۔۔۔۔۔اپنا گراں ہووے عامل۔۔۔۔۔ بچہ! آج تو کن حسین خوابوں میں گم ہوگیا ہے ،یہ خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے یا سوتے ہوئے ؟معمول۔۔۔۔۔استاد جی ! کافی عرصہ ہوگیا ہے مجھے گائوں سے شہر شفٹ ہوئے ، میرے پاس تمام سہولیات ہیں کوٹھی ،بنگلا غرضیکہ دنیا کی ریہل پہل اور تمام رنگینیاں موجود ہیں ، اے سی والی گاڑی ، کمرے اور دفتر بھی میسر ہیں ، رات دن آرام دیہہ زندگی گذار رہا ہوں ، صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہوں ،سب مجھے بابو کہہ کر پکارتے ہیں۔
عامل ۔۔۔۔۔ بچہ! اگر یہ سب سہولیات تمہارے پاس موجود ہیں تو پھر آج کیوں تجھے اتنے سالوں بعد اپنا گراں یاد آرہا ہے؟ معمول۔۔۔۔۔ استاد جی ! میں نے آپکو بتایا کہ میرے پاس سب کچھ موجود ہے مگر وہ پیار محبت اور خلوص نہیں جو کہ انپڑھ ، سادہ لوح اور سچے کھرے بزرگوں سے ملتا تھا ، وہاں اگر ایک گھر میں کوئی غم ہو تو پورا گائوں غمزدہ ہوجاتا ،اس کے غم میں سب شریک ہوتے ، اس کے دکھ دردوں کو ایسے بانٹ لیتے جیسے یہ ان کا اپناہ۔
مگریہاں نفسا نفسی کا دور ہے ، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ، ہمسائے کے بڑے حقوق ہوتے ہیں مگر یہاں کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ ہمسایہ کون ہے ، اگر کوئی تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو بجائے ہمدردی کے تماشہ دیکھتے ہیں ، لگتا ہے اب خوشیاں اور دکھ درد پیسے نے لے لئے ہیں ۔ یہاں خوشیاں اور درد تو ہیں مگر کوئی بانٹے والا نہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس اپنے گائوں چلا جائوں۔
Development
عامل۔۔۔۔۔ بچہ! تو عجیب شخص ہے کہ اب تو ترقی کا دور ہے ، لوگ اچھی زندگی گذارنے کیلئے ہی تو شہروں کا رخ کرتے ہیں اور تو واپس جانے کی بات کررہا ہے ؟معمول۔۔۔۔۔ استاد جی ! میرا شہری زندگی سے دل اُکتا گیا ہے ، ہر چیز دو نمبر ہے ۔نہ کھانے پینے میں کوئی سواد رہا اور نہ ہی کسی کے پیار محبت اور اخلاق میں سچائی نظر آتی ہے ، اگر آپ پر کوئی غم کا پہاڑ گر جائے تو کوئی ڈھارس دینے والا نہیں ، خود ہی بند کمروں میں دھاڑیں مار مار کر دل ہولا کرنا پڑتا ہے ، خوشیوں میں ساتھ دینے والوں کی سچی خوشی نہیں دیکھنے کو ملتی بلکہ حسد اور رعا کاری ہی نظر آتی ہے عامل ۔۔۔۔۔۔ بچہ ! تجھے کیا ہوگیا ہے ،سالوں بعد تجھے اپنا گراں یاد آگیا حالانکہ تیرے پاس خوبصورت بنگلا ہے ، سونے کیلئے مہنگے ترین اور پولے پولے بیڈ ہیں جن پر خوبصورت فوم والے تکیے ہیں ، آرام دیہہ زندگی گذار ۔سکون سے نیند کے مزے اڑا۔دیہاتوں میں کیا پڑا ہے وہاں کی زندگی تو انتہائی مشکل ہے۔
معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! مجھے ان خوبصورت بنگلوں سے خوف آتا ہے ، اپنے گراں کے کچے مکانوں پر لگی مٹی کی خوشبو یاد آتی ہے، جہاں میں آرام سے بغیر بجلی کے پنکھوں اور ائرکنڈیشنڈ کے لمبی تان کر وانڑ دی منجھی پر فوم کے تکیوں کی جگہ اپنے سر کے نیچے بازو رکھ کر سوجاتا تھا ، یہاں تو اب نیند بھی گولیوں کے بغیر نہیں آتی ۔ استاد جی ! مجھے اپنے گراں میں وسائل کم ہونے کے باوجود زندگی بہتر گذرتی دکھائی دیتی ہے، وہاں کی اچھی خوراک سے لوگ کم بیمار ہوتے ہیں مگر یہاں ملاوٹ شدہ خوراک سے آئے روز نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ، بظاہر خوش و خرم نظر آنے والا شخص اندر سے نہ جانے کینسر ، کالا یرقان ، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی کون کون سی موذی بیماریوں میں مبتلا ہے ، گائوں میں مجھے اپنے جانوروں کا تازہ خالص دودھ اور اس سے تیار لسی کی بھینی بھینی خوشبو ،سرسوں کا ساگ جو عرصہ سے نہیں کھایا ،کھانے کو بہت دل کرتا ہے۔
عامل ۔۔۔۔۔ بچہ ! تیری باتیں تو ٹھیک ہیں ، میں بھی ساری زندگی شہروں میں رہا ، مجھے تو دیہاتی زندگی سے متعلق کچھ معلوم نہیں ، وہاں کے لوگ کیسے ہوتے ہیں، وہ بھی بتا ؟ معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! شہروں میں تو لوگ آپس میں بیٹھنے کی بجائے بند کمروں میں ٹی وی ، ڈش دیکھ کرہی وقت پورا کرتے ہیں مگر دیہاتوں میں لوگ ایک تو پکے نمازی ہوتے ہیں ، پھر کھیتی باڑی کے بعد واپس آکر” طوطاں دی چھاں تلے بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیاں بانٹنے کیلئے اکٹھے بیٹھ کر حل تلاش کرتے ہیں ، خواتین دن کو کپڑے دھونے کیلئے سواں پر چلی جاتی ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کپڑے دھوتیں ،شام کوگھروں سے گھڑے سر پر رکھ کر گائوں سے باہر کنو ئوں پر پانی بھرنے کیلئے اکٹھی ہوجاتیں ، وہاں خوب باتیں کرتیں اور درختوں پر لگی پینگوں پر جھولے جھولتیں ،گانے گاتیں ، رات کو بڑی اماں بچوں کو پرانی کہانیاں سناتیں ،تمام دکھ درد خوشیوں میں بدل جاتے۔
Brotherhood
سب ایک برادری معلوم ہوتے ، کسی لڑکی یا لڑکے کی شادی ہوتو سار ی ساری رات ڈھولک کی تھاپ پر گیت گائے جاتے ،بھنگڑے ڈالے جاتے ، یو ں شادی کی خوشیاں دوبالا ہوجاتیں ، اسی طرح مرد حضرات بھی رات کو ایک کھلی حویلی میں بیٹھ جاتے اور گائوں میں ماما نیاز علی جو کہ شہری زندگی سے تنگ آکر دیہی زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا ، خدا نے اسکے گلے میں سوز کا وہ جادو بھر دیا تھا کہ ہر سننے والا دنیا سے بے خبر پوری رات اسی مجلس میں گم ہوجاتا، ساری رات خالص دودھ کی چائے اور مونگ پھلی کھاتے رہتے ، ماما نیاز علی کا ایک گیت جو کہ اب بھی میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے (اپنا گراں ہووے طوطاں دی چھاں ہووے )وغیرہ سن کر بہت محضوض ہوتے ( اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جواررحمت میں جگہ فرمائے)۔ وہ ایک انتہائی درویش صفت انسان تھے ، انہوں نے اپنی ساری زندگی دکھوں میں گزار دی مگر باقی سب کو خوشیاں بانٹے بانٹے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
عامل۔۔۔۔۔ بچہ ! اسکا مطلب ہے کہ دیہاتی زندگی ہی تو اصل زندگی ہے، شہروں میں تو ہم صرف ایک مشین کی طرح زندگی گذار رہے ہیں ، سارا پیار ، محبت اور خلوص خوشیاں غم جنہیں ہم انپڑھ کہتے ہیں ، انکے درمیان ہوتا ہے ، ہماری ترقی بھی تو انہیں کی بدولت ہے ، گندم ، مکئی ، باجرہ ، سبزیاں اور پھل وغیرہ اگاتے ہیں ، تمام ملک میں ضروریات زندگی گذارنے والوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں ، شہروں میں تو صرف رہنے کیلئے چند گز زمین ہی مکانوں کیلئے ہوتی ہے ، اناج تو صرف دیہاتوں میں ہی اگائے جاتے ہیں دوسرے لفظوں میں ترقی کا سفر انہی دیہاتوں کے مرہون منت ہے۔
معمول۔۔۔۔۔ استاد جی ! آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ ترقی کا دارو مدار دیہی زندگی گذارنے والوں کی بدلت ہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومتیں دیہاتوں کو شہروں سے ملانے کیلئے سڑکیں بنارہی ہیں ، تا کہ سفر بآسانی اور آمدورفت بھی ممکن ہوسکے ، حکومت کسانوں کو مراعات بھی اسی وجہ سے دیتی ہے ، دیہاتی زندگی شہری زندگی سے آرام دیہہ ہوتی ہے ،ایک دوسروں کے درمیان سچی محبتیں ہوتی ہیں ، اتحاد بھی ہوتا ہے ، 70%آبادی بھی ان دیہاتوں میں آباد ہے ، علاقوں کی خوبصورتی دیکھنے اور انجوائے کرنے کیلئے ہم اکثر و بیشتر جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اب میں اپنی باقی زندگی اپنے گائوں میں جاکر گذارنا چاہتا ہوں ، اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو میرے بچپن کے تھے ۔ اب تو ہمارے گائوں میں بھی بجلی آگئی ہے۔