ایک روز امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کا بیٹا گھر میں زار و قطار رو رہا تھا ماں کا دل بچے کی اس حالت پر تڑپ اٹھا ، اس نے بڑی محبت او ر شفقت کے ساتھ بچے سے رونے کا سبب پو چھا ۔ بچے نے روتے ہوئے ماں کو بتایا ” ماں ! میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہے اور جہاں سے یہ لباس پھٹ جاتا ہے تو آپ وہاں پیوند لگا دیتی ہیں ، اب تو میرے لباس میں اور پیوند لگانے کی جگہ بھی نہیں رہی ۔ مدرسے میں میرے ساتھی اچھے کپڑوں میں آ تے ہیں ۔ وہ میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں تم خلیفہ کے بیٹے ہو کر بھی اس حلئے میں مدرسے آتے ہو ” ماں ننھے بچے کی یہ بات سن کر بہت رنجیدہ ہوئی ۔ اس نے بچے کو بہلا پھسلا کر سمجھانے کی بہت کوشش لیکن بچہ نہ مانا اور اس نے کہ دیا ” ماں ! اگر آپ نے مجھے نیا لباس نہ سلوا کر دیا تو میں کل مدرسے نہیں جا ئوں گا ” ۔ اسی دوران حضرت عمر بن عبد العزیز گھر میں داخل ہوئے۔
بچے کی ماں نے اپنے شوہر سے کہا ” اے مسلمانوں کے خلیفہ ! میں ایک وقت کے حاکم کی بیوی ہونے کے باوجود گھر کے سارے کام خود کرتی ہوں ۔ میں نے روکھاپھیکا کھاکر آپ کے ساتھ گذارا کیا ہے ۔ ہمیشہ آپ کی اطاعت کی ہے ۔ آپ کے حکم پر اپنی دولت جائیداد اور زیورات بیت المال میں جمع کرادیئے ۔ آپ سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی لیکن میں یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ میرے لخت جگر کو مدرسے میں اپنے پھٹے پرانے لباس کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑے ، لہذا آپ آج ہی میرے بیٹے کے لئے نئے لباس کا انتظام کریں ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کے دل پر بیوی کی ان باتوں کا گہرا اثر ہوا ، وہ اپنے بچے کو نیا لباس دلوانا چاہتے تھے لیکن ان کی جیب میں پھوٹی کو ڑی تک نہ تھی چنا نچہ آپ نے بیوی سے کاغذ قلم منگوایا اور بیت المال کے وزیر کو ایک رقعہ لکھ کر بھیجا کہ میرے اگلے ماہ کی تنخواہ میں سے رقم پیشگی دے دو ، اگلے ماہ کی تنخواہ سے کاٹ لینا ۔ کچھ دیر بعد بیت المال کے وزیر کا جوابی خط ملا جس میں لکھا تھا اے خلیفہ! آپ اس بات کو کیسے ضمانت دیں گے کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہیں گے اور خلیفہ کے منصب پر فائز بھی رہیں گے۔
عمر بن عبد العزیز یہ سب پڑھ کر خاموش ہوگئے ۔ بھلا وہ اس کی ضمانت کیسے دے سکتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹے کو سمجھایا کہ اگلے مہینے تنخواہ ملنے پر نیا لباس منگوا دوں گا ۔یہ تھے مسلم قوم کے اصل حکمران جو اسلامی نظام کے عین مطابق حکمرانی کے فرائض انجام دے رہے تھے پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا لیکن قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس ملک کو حقیقی حکمران نصیب حاصل نہ ہوسکا اس کی وجہ باالکل واضح ہے اس ملک پر جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ، وڈیروں اور مراعات یافتہ افرادکا قبضہ ہے۔
ان لوگوں نے اس ملک کے نظام کو جکڑا رکھا ہے یہ ہر اس شخص کے خلاف آگے روڑے اٹکاتے ہیں جن سے ان کو ڈر لاحق ہوتا ہے اس طبقے نے قائد اعظم سے لیکر آج تک کسی بھی حکمران کو کھل کر کام کرنے نہیں دیا یہاں کے انتخابات میں بھی وہی امیدوار کامیاب ہوتا ہے جسے یہ طبقہ چاہتا ہے یہ لوگ دن دہاڑے شاہزیب جیسے نوجونواں کا قتل بھی کرتے ہیں اور جب چاہیں منو بھیل جیسے غریب لوگوں کی بہو بیٹیوں کو اغوا کرلیتے ہیں ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں رہا قانون تو وہ ان کے گھر کی باندی بن کر رہ گیا ہے۔
Hazrat Umar bin Abdul
یہ کبھی بھی اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی اجازت نہیں دینگے کیونکہ اسلامی نظام سے اس طبقے کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ان کی جائیدادیں اور مفادات ختم ہوجائیں گے آپ اس ملک میں رہنے والے حکمرانوں کی جائیدادوں پر نظر دوڑائیں اور قوم کی حالت زار بھی دیکھ لیں تو آپ کو واضح فرق نظر آئے گا جمہوریت میں اصل حکمران عوام کو تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اصل حکمران کو ن ہے اس کا با آسانی علم ہوجائے گا۔
ان چار طبقوں کی خواہشات پر یہاں کے قوانین میں ترامیم کی جاتی ہے صدارتی آرڈیننس جاری کئے جاتے ہیں اس طبقے کا ایک صوبائی وزیر بھی بھاری بھرکم حصارمیں نکلتا ہے اور عوام کے پیسوں کا بے دریغ استعمال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ان کے بچے دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیںان حکمرانوں کی آمدنی اس قدر وافر ہوتی ہے کہ یہ عمر بن عبدالعزیز کی طرح اپنے بچے کے کپڑوں کے لئے بیت المال کے وزیر کورقعہ نہیں لکھتے ہیں ان کے بچے مہنگے ترین لباس زیب تن کرتے ہیں او ر اس لباس کو دوسری دفعہ پہننا اپنی توہین سمجھتے ہیں یہ بچے عمر بن عبد العزیز کے بچے کی طرح روتے نہیں ہیں نہ ہی ان کی مائیں انھیں ڈھارس بندھاتی ہیں۔
آپ اس ملک کے بچوں کی بد نصیبی دیکھیں یہ ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیںجہاں پر قریب ہی بھینسوں کے باڑے قائم ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں دو طبقہ کے لوگ ہیں ایک مراعات یافتہ تو دوسرے غریب لوگ ایک طبقہ حکمران ہے تو دوسرا طبقہ غلام ہے ایک طبقے پر ٹیکس دینا لازم ہے تو دوسرا طبقہ ان ٹیکسوں سے اپنے محلات تعمیر کراتا ہے اس کے صلے میں یہاں کے حاکم ان کو مہنگائی ، بے روزگاری ، ٹارگٹ کلنگ ، لاقانونیت اور خودکشیوں کے تحفے دیتے ہیں اس قوم نے کبھی بھی عمر بن عبد العزیز جیسے حکمرانوں لانے کی کوششیں کرنا تک گوارانہ کی معلوم نہیں یہ قوم جاگے گی لیکن جاگے گی ضرور کیونکہ ظلم سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
وہ دن دور نہیں جب اس ملک کا حاکم اور اس کی بیوی بھی اپنی ساری جائیداد حکومت کو دیدے گی پھر اس کے گھر میں بھی بچے اپنے پھٹے پرانے لباس پر روئیں گے اور اس ملک کا حاکم بھی اپنی بیوی سے کاغذ قلم منگوائے گا اور بیت المال کے وزیرکو ایڈوانس تنخواہ لینے کے لئے رقعہ لکھے گااور اس کی چٹھی یہ کہ کر مسترد کردی جائے گی کہ آپ اس بات کی کیسے ضمانت دینگے کہ اگلے مہینے تک آپ زندہ رہیں گے اور کیا یہ بھی ضروری ہے کہ حاکم کے منصب پر بھی فائز رہیں گے اور وہ حکمران بھی خاموش ہوجائے گا پھر وہ بھی اپنی بیوی اور بچے کو سمجھائے گا کہ اگلے ماہ کی تنخواہ سے لباس منگوا دوں گا۔