تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری 1970کے منعقدہ عام انتخابات کے بعد آج تک کوئی شفاف الیکشن نہیں ہو سکا جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ غریب آدمی انتخاب میں حصہ لے ہی نہیں سکتا ہر الیکشن میں سرمایہ دار ، جاگیردار ،وڈیرے ہی حصہ لیتے ہیں اور چونکہ پاکستانی انتخابات کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ کوئی مال بنائو،ذاتی سرمایہ بڑھائو کاروبار ہے اس لیے ہر علاقے کے سرمایہ پرست شخص کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر منتخب ہو کرمال لُٹو تے پُھٹومیں حصہ لے اور ہر قیمت پر منتخب ہو کہ اس سے بڑا کوئی اور کاروبار نہیں ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ انتخابات میں ہر سطح پر امیدواروں کے سرمایہ خرچ کرنے پر مکمل پابندی عائد ہو جوامیدوارسرمایہ لیتا ،دیتا پکڑا جائے اسکا فوری سمری ٹرائل کرکے اسے کم ازکم بیس سال قید بامشقت کی سزادی جائے۔
کسی ایسے امیدوار کو انتخاب میں حصہ لینے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے جو پانچ ایکڑ زرعی زمین سے زائد رکھتا ہو۔ذاتی رہائشی مکان کے علاوہ ملک بھر میں اور کوئی مکان رکھتا ہو بنک بیلنس بھی پانچ لاکھ سے زائد نہ رکھتا ہوغرضیکہ ہمہ قسم سرمایہ پرستوں، سود خوروں ،ظالم جاگیرداروں ،اوباش وڈیروں ،لٹیرے صنعتکاروں کوممبران اسمبلی تو کجا معمولی کو نسلر کے انتخاب میں بھی حصہ لینے کی اجازت قطعاً نہیں ہونی چاہیے۔حکومت کا کوئی اتنا بڑا سرمایہ خرچ نہیں ہو گا
اگر تمام امیدواروں کے منشور،پروگرام کادو ورقہ اشتہارشائع کرکے بذریعہ پوسٹ آفس یا حکومتی مشینری کے ذریعے گھر گھر پہنچا دیا جائے ہر یونین کونسل میں قرب و جوار ملحقہ چکوک کے لوگوں کو اکٹھا کرکے دو تین جگہ جلسہ ہائے عام سے سبھی امیدواروں کا خطاب کروادیاجائے جہاں پرپاکستانی مروجہ سیاست کی طرح ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے اور گالی گلوچ کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوانتخابات افراد کے پیشوں کی تعدادبلحاظ آبادی کے تحت ہوں تاکہ ہر منتخب شخص اپنے اپنے پیشہ کے مسائل کو سمجھتے ہوئے انھیں حل کر سکے ہر طبقہ کی تعداد کے مطابق اس کی سیٹیں مختص کی جائیں۔
Labor
کارخانوں کے مزدوروں کسانوں ،کھیت مزدوروں ،ہاریوں ،ہر قسم کے محنت کشوں ،دوکانداروں ، ملازمین ، اساتذہ ،طالب علموں ،انجینئروں ، ڈاکٹروں ،صحافیوں ،علمائے کرام ، پیران عظام غرضیکہ ہر طبقے کی تعداد کے مطابق ان کی سیٹیں مختص کردی جائیں تو یہ واقعتاً اصل اسلامی جمہوریت ہوگی اور لادینی کرپٹ آمرانہ جمہوریت سے چھٹکارا مل جائے گااور تواورپانچ ایکڑ سے اوپر زمین رکھنے والوں اور پانچ لاکھ سے اوپر سرمایہ رکھنے والو ں کو بھی ایک دو فیصد سیٹیںجو بلحاظ تعداد بنتی ہوں دینے میں کوئی مضائقہ نہ ہے اس طرح اگر انتخابات کا انعقاد کروایا جائے انتخابی مشینری ایماندار اور ایکسپرٹ لوگوں پر مشتمل ہوتو منتخب لوگ واقعی قابل ، ایماندار ہی ہوں گے
ملک اسلامی فلاحی مملکت بن کر رہے گااور دنیا پاکستان کے انتخابات کی مثالیں دیا کرے گی۔ اگر موجودہ انتخابی قوانین کے تحت صرف کروڑوں خرچ کرکے ہی منتخب ہونا ہے تو پھر امیدوار یہی اپنا سرمایہ واپس لینے کے لیے ہر قسم کی دھاندلی ہیرا پھیری روا رکھیں گے اور جب تک ممبر رہیں گے غریبوں کے مال پر عیاشیاں کرنا اپنا حق سمجھ لیں گے اور بیرون ملک پلازے بنانا اور بنکوں میں حرام مال جمع کرواناضروری کام سمجھتے ہوئے کریں گے
تاکہ آئندہ پھر انتخابات میں مال خرچ کرکے دوبارہ منتخب ہو سکیں اس طرح سے بیورو کریسی ،سرمایہ پرست افراد اور مقتدر قوتوں کی تکون ہی ہمیشہ غریب عوام کی گردنوں پر سوار رہتی ہے آج تک یہی ہوتا آیا ہے کہ خون مزدور شرابوں میں ملا کرپیا جاتا ہے اور ملک کسمپرسی کی حالت کو پہنچ گیا ہے۔