تحریر : اقرا اعجاز عدل کائنات کا خاصہ ہے خالق کائنات نے کائنات کو عدل پر مبنی قانون پر استوار کیا ہے اسی وجہ سے کائنات کی کسی شے میں کوئی خامی یا نقص نہیں پایا جاتا .ہم اپنے اعضاء کو ہی دیکھ لیں اس میں اگر ذرا سا بھی توازن بگڑ جائے تو نہ صرف ہماری ظاہری خوبصورتی متاثر ہوتی بلکہ ہمیں اس کے استعمال میں بھی دشواری آتی ہے مثلا آپ اپنے ہاتھ کو لیں اس میں اگر ذرا سا بھی نقص ہو گا تو آپ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر پائیں گے یہ ہی وجہ ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ایک دائرہ کار میں ہے جس میں کوئی خلل نہیں اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو بہت مقامات پہ عدل و انصاف کا حکم دیا ہے .سب انسان اپنے اصل کے لحاظ سے ایک ہیں انہیں ذاتوں اور قبیلوں میں محض تعارف اور باہمی تعاون کے لئے تقسیم کیا گیا ہے تقسیم کا ہرگز مطلب یہ نہ لیا جائے کہ کوئی کسی سے برتر یا کمتر ہے بحیثیت مسلمان ہمیں ہر معاملے میں اپنی کتاب قرآن پاک سے رہنمائی لینی چاہیے جس میں متعدد مقامات پر عدل و انصاف کا ذکر ہے۔
عدل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی برابری کے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ کسی بوجھ کو دو برابر حصوں میں ایسے تقسیم کیا جائے کہ ان میں کسی قسم کی کمی پیشی نہ ہو جس معاشرے میں عدل نہیں ہوتا اس معاشرے کے لوگ بغاوت پر مجبور ہو جاتے ہیں . شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم اسلام میں عدل و انصاف کی بہت اہمیت ہے مسلمانوں کے لئے سب سے پہلا حکم عدل کا ہی ہے عدل کے معنی انصاف کرنے کے بھی ہیں یعنی ایک انسان دوسرے انسان سے اس دنیاوی زندگی میں انصاف سے کام لے دوسرے معنوں میں اسے اعتدال کہتے ہیں عدل کو میزان یا ترازو بھی کیا جاتا ہے .کیونکہ اس کے دونوں پلڑے برابر ہوتے ہیں۔
ذرا سی بھی اونچ نیچ عدل کے منافی ہو گی حشر کے میدان میں اللہ تعالی اپنا میزان نصب کرے گا جس میں بندوں کے اعمال ٹولے جائیں گے اللہ بڑا عادل اور انصاف والا ہے .اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایااے ایمان والو . انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو جان رکھو خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے سورہ نسائ 531 حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی تین قسم کے ہیں ان میں سے ایک جنت کا مستحق ہے اور دو دوزخ کے مستحق ہیں۔
Heaven
جنت کا مستحق وہ حاکم عدالت ہے جس نے حق کو سمجھا اور فیصلہ کیا .جس نے حق کو سمجھنے کے باوجود غلط فیصلہ کیا وہ دوزخ کا مستحق ہے اور بے علم اور ناواقف ہونے کہ باوجود فیصلے کی جرات کرتا ہے وہ بھی دوزخ کا مستحق ہے .حقیقت میں اسلام عدل و انصاف کا ہی دوسرا نام ہے اور کسی بھی نظام کی بقاء کے لئے عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے دنیا میں حضرت آدم سے لیکر ہمارے آخری نبی صل اللہ علیہ وسلم تک بہت سی آسمانی کتابیں اور صحیفے نازل کرنے کا مقصد یہ ہی تھا کہ دنیا میں انصاف اور اس کے ذریعے امن و امان ہو ہر فرد اپنے اپنے دائرہ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنائے اور جو سرکش تعلیم و تبلیغ کے ذریعے عدل و انصاف پہ نہ آئیں ان کو قانون اور سزا کے ذریعے انصاف پر قائم رہنے کے لئے مجبور کیا جائے اگر آج پوری دنیا میں عدل و انصاف کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو عملا قانون معطل نظر آتا ہے جرائم میں روز افزون اضافہ ہو رہا ہے۔ نگاہ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے میری نظروں میں پھیکا رنگ محفل ہوتا جاتا ہے
اسلام میں عدل و انصاف کا بہترین نمونہ ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہے آپ کے بعد خلفائے راشدین نے اس اصول کائنات پہ عمل کیا تو شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پہ پانی پینے لگے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کا ایک واقعہ ہے آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ آپ کا جب انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا لوگو . حضرت عمر کا انتقال ہو گیا لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم دور جنگل میں رہتے ہو تمیہن کیسے خبر ہوئی چرواہا بولا جب تک حضرت عمر زندہ تھے میری بکریاں آزادانہ جنگل میں گھومتی تھی کسی درندے نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا . آج پہلی مرتبہ ایک بھیڑ یا میری بھیڑ کے بچے کو لے گیا میں نے بھیڑے کی جرات دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آج عمر اس دنیا میں نہیں ہیں۔
ALLAH
عدل و انصاف میں یہ بھی شامل ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم سے روکا جائے حتی کہ اگر مظلوم کا حق دلوانے کے لئے شہادت بھی دینی پڑے تو گریز نہ کیا جائے .عدل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ یہ اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے ہمارے نبی صل اللہ وسلم کی تعلیمات تھی جن پہ خلفاء قائم رہے اور اپنے آپ کو عوام کی عدالت میں پیش کرتے رہے .اب اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہمارے حکمران عدل و انصاف سے کوسوں دور ہیں اور صاحب صرف حکمرانوں کو ہی کیوں مورد الزام ٹھرایا جائے عوام میں بھی فقدان ہے عدل کے معنی یہ بھی ہیں کہ طاقتور کمزور پہ ظلم نہ کرے مگر ذرا سوچئے ہم میں سے کتنے اس پر عمل کرتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ الزام برائے الزام کی بجائے اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اگر ہم چھوٹے چھوٹے معاملات میں عدل سے کام لینے لگیں گے تو ہم پہ ویسے ہی حکمران مسلط ہوں گے جن کا شعار عدل وانصاف ہوگا کیونکہ آخرکار حکمران بھی ہم میں سے ہی منتخب ہوتے ہیں میں اب بھی امید پہ قائم ہوں کہ اس معاشرے کو سنوارا جا سکتا ہے کیونکہ امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا