تحریر : عقیل خان انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہر حد کو کراس کرجاتا ہے۔ بہت سے لوگ تو اپنے مذہب کو بھی اپنی خواہشات پر قربان کردیتے ہیں۔ ان کی ایک ہی سوچ ہوتی ہے کہ ہماری خواہش پوری ہوجائے۔خواہشات تو ہر انسان کے دل میں ہوتی ہیں مگر ضروری نہیں کہ انسان کی تمام تمنائیں پوری ہوں۔جب انسان کی تمنائیں پوری نہیں ہوتی تو پھر وہ ان کو پورا کرنا کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔اس کے لیے اس کو کیسی عامل بابا، جنات والا بابا، پریوں والا بابا اور بہت سے گمراہ کرنے والے بابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
پاکستان میںاکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے جعلی عامل لوگ بڑی چھوٹی داڑھیاں رکھے بکثرت پائے جاتے ہیں۔جن کا کام لوگوں کو اپنے دام میں پھنسا کر ہزاروں لاکھوں روپے اینٹھنا اور خواتین کو بلیک میل کر کے انکے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔اخبارات میں ان بابوں کے اشتہارات دیکھ کر حیران ہو تے ہیں کہ کیا یہ واقعی یہ اتنا کماتے ہونگے جتنے کے اشتہار دیتے ہیں۔ آپ جب بھی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی نظر سے کچھ اس طرح کے اشتہارات اکثر نظر سے گزرتے ہونگے مثلا: شہنشاہِ جنات، روحانی عامل، ہر مسئلے کا حل صرف چند گھنٹوں میں، دکھی بہن بھائیوں کے نام اہم پیغام، محبوب آپ کے قدموں میں، من پسندشادی، طلاق کا مسئلہ، رشتوں کی بندش، سفر میں رکاوٹ،دشمن کو زیر کر نا، گھریلو ناچاقی وغیرہ وغیرہ
ایک سچی اور ذاتی تجربے پر مبنی ایک سٹوری آپ کو سناتا ہوں۔کافی عرصہ سے میرے بہنوئی پاؤں کے جوڑوں میں درد کی تکلیف میں مبتلا ہیں ۔ انہیں کسی نے بتایا کہ وہ خانیوال کے قریب ایک چک میں پریاں والا بابا ہے جو روحانی علاج کرتا ہے جس سے چند دن میں آرام آجاتا ہے۔ ڈاکٹروں سے تو بھائی صاحب نے کافی علاج کرالیا اور اس کا آخری علاج یہی بتایا گیا کہ آپریشن ہوگا۔ بھائی صاحب نے بھی سوچا کہ چلو اس ”پریاں والے بابے” سے میں علاج کرالوں۔انہوں نے اس بابا جی کا ایڈریس لیا اور کراچی سے خانیوال پہنچ گئے۔ بابا جی نے پہلے ہی دن ایک گھٹنے کا روحانی آپریشن کردیا اور آٹھ دن بعد دوبارہ آنے کا حکم صادر کردیاساتھ میں ایک پیکٹ دے دیا کی یہ دوائی کھائیں۔ بھائی صاحب دوائی وغیرہ لیکر ہمارے ہاں پہنچ گئے۔انہوں نے اپنی ساری کہانی ہمیں سنائی۔ مجھے بھی تجسس ہوا کہ ایسے عامل سے میں بھی ملوں جو چند سو روپوں میںہر قسم کا علاج کردیتا ہے اور لوگ ہزاروں روپے خرچ کرچکے کرکے بھی تکلیف میں رہتے ہیں۔ میں نے بھی اگلی باری بھائی جان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
Intizar Gah
میں تحقیق کی غرض سے بھائی جان کے ساتھ چل دیا کیونکہ پہلی بار لاہور سے جانا تھا اسی لیے راستے کاصحیح علم بھائی جان کوبھی نہیں تھا۔ ہم بابا جی کی رسید پر درج ایڈریس کے مطابق براستہ کچا کھوہ چوک جمال پہنچ گئے۔ (پاکستان بھر سے آنے والوں کے لیے بابا جی نے اپنے لیٹر پیڈ پر روٹ بھی لکھے ہوئے ہیں) راستے میں ایک دو جگہ پر ہم نے لوگوں سے باباجی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ راستہ بتایا ۔ان کی مسکراہٹ سے مجھے کچھ شک ہونے لگا کہ کوئی چکر ضرور ہے۔ تجسس اور بڑھ گیا کہ جاکر دیکھیں تو صحیح اصلیت کیا ہے؟ ایڈریس پوچھتے پوچھاتے ہم لوگ گیارہ بجے کے قریب کے دربار عالیہ پر پہنچ گئے۔ اجنبی ہونے کے ناطے لوگوں سے معلومات لینا شروع کردی ۔ میں نے ایک مرید سے سوال کیا بابا جی کس ٹائم مریض چیک کرنا شروع کریں گے تو اس نے بڑے جوشیلے اندا ز میں بتایا کہ آپ کو نہیں پتا زوال کے ٹائم پریاں آتی ہیں اور پھر وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ میں نے ٹھیک ہے جناب۔ اس شخص نے بابا جی کی تعریف میں پل باندھنے شروع کردیا اور پاکستان کا کوئی شہر نہیں چھوڑا جہاں سے بابا جی کے پاس لوگ نہ آئے ہوں۔
میں نے دیکھا بابا جی کے کمرے کے سامنے ایک نوجوان کچھ رسید اور لیٹر پیڈلیکر بیٹھا ہوا ہے۔وہ ہسپتالوں کی طرح نمبرنگ کرکے مریضوں کو رسید دے رہا تھا۔ البتہ جن کا آپریشن ہونا تھا ان کا باقاعدہ ایک فارم بنا ہوا جس پر وہ مریض کے ساتھ آنے والے یا مریض خود کا شناختی کارڈ لیکر سارا ڈیٹا اس پر لکھتا ۔(ہسپتالوں کی طرح آپریشن سے پہلے اجازت نامہ بھی درج تھا)۔ ٹھیک بارہ بجے بابا جی نے مریضوں کو چیک کرنا شروع کردیا۔ ہمارا نمبر آنے میں کافی دیر تھی اس لیے میں اس نوجوان کے پاس بیٹھ گیا جو جو نمبر نگ کررہا تھااور اس سے معلوما ت لینا شروع کردی۔
بقول نوجوان کے کہ ہم سب بھائی اور باپ بابا جی کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔ باباجی کا والد باباجی کے ساتھ اندر کمرے میں مریضوں کو چیک کراتا ہے ۔ ایک بھائی دوائی والے پیکٹ دیتا ہے(مرض کچھ بھی ہو پیکٹ وہ ایک ہی سب کو دیا جاتا ہے جس کی قیمت 1050 روپے ہے) وہ خود نوجوان نمبرنگ کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔بابا جی اپنے دربار کے علاوہ لاہور (سبزہ زار) ساہیوال میں بھی مہینے کے ایک دن آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی بابا جی کو اپنے گھر سپیشل لیکر جانا چاہتا ہے تو پھر بابا جی کو دوائی کے علاوہ گاڑی کا کرایہ بھی دینا پڑتا ہے کیونکہ بابا جی کسی اور کی گاڑی میں نہیں جاسکتے ۔ معلومات لیتے ہوئے میر ی نظر دیوار پر پڑی جہاں مریضوں کی چیکنگ کا ٹائم 9بجے لکھا ہواتھا ۔ میں نے جب اس کے متعلق پوچھا تو اس نوجوان نے بتایا کہ یہ ٹائم رمضان میں ہوتا ہے۔میں یہ سن کر حیران ہوگیا کہ مرید نے تو بتایاکہ زوال کے ٹائم پریا ں آتی ہیں اوریہ نو بجے پریاں کو آنا کچھ سمجھ سے باہر تھا۔
Baba G
کچھ وقت کے بعد ہماری باری آگئی تو میں بھی بابا جی دیدار کرنے اندر چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں بابا جی نے عورتوں کی طرح برقع پہنا ہوا ہے ۔بس ان کے ہاتھ اور آنکھیں باہر نظرآرہی تھیں ۔ہاتھ مردوں کی طرح جن میں بڑی بڑی انگوٹھیاں پہنی ہوئیں تھیں۔ (انگوٹھیاں بظاہر سونے کی لگ رہی تھی باقی آج کل رولڈ گولڈ ایسا چل رہا ہے کہ پہچاننا مشکل ہے) آنکھوں میں بڑے بڑے ڈورے ڈالے ہوئے تھے۔ باباجی نے پہلے مریض کو چیک کیا اور پھر میر ی طرف دیکھا ۔ میں مسلسل بابا جی کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ علاج کرنے کاکیسا انداز ہے؟ باباجی نے دیکھتے ہی حکم دیا کہ دوسرپیر کا آپریشن آج ہی ہوگا۔ ہم باہر آگئے اور ہمارے بعد ایک دو مریض اور گئے اس کے بعد آپریشن کرنا شروع کردیا۔
باباجی خو ددروازے پر آتے مریض کو اندر لیکر جاتے اور ایک منٹ سے پہلے آپریشن کرکے مریض کو باہر بھیج دیتے تھے۔ اس آپریشن کرانے والوں میں ہمارا آخری نمبر تھا جو37واں تھا۔ تقریبا آدھے گھنٹے میں تمام آپریشن مکمل ہوگئے۔میں دیکھ کر حیران ہوگیا کہ دوگھنٹے میں بابا جی تقریباً پچاس ہزار روپے کما لیے کیونکہ 37مریضوں کا آپریشن کیا تو انکے 1050 روپے کے حساب سے 38850 روپے تو یہ بن گئے اور بہت سے مریضوں کو دوائی دیکر پھر دوبارہ بلایا تھا۔ جو بندہ ایک دن کا پچاس ہزار کماتا ہوتو اس کی ماہانہ انکم کتنی ہوگی؟ دوائی لیکر ہم گھر آگئے اور بابا جی کے حکم کے مطابق پندرہ دن بعد آپریشن کے ٹانکے وہ فون پر کراچی جا کر کٹوالیں۔ یہ بتاتا چلوں کہ بابا جی کو جب بتایا کہ پہلے پاؤں کے آپریشن کرنے کے باوجود کوئی فرق نہیںتو انہوں نے کہا کوئی پریشانی کی بات نہیں پندرہ دن میں سب ٹھیک ہوجائے گا مگر تاحال بھائی جان اس مرض میں مبتلا ہیں اور فیملی والے اکثر ان کا مذاق بناتے ہیں کہ اور پریاں والے بابا جی سے علاج کراؤ۔
سوال یہ ہے کہ ہم لوگ کب تک ایسے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے؟کب تک ہم ایسے بابوں پر پیسوں کی برسات کرتے رہیں گے۔ جو اللہ کے نیک لوگ اور بزرگ ہوتے ہیں وہ کبھی پیسوں کی خاطر ایسا کام نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کی رضا اور انسانی خدمت سمجھ پر علاج کرتے ہیں۔ یہ ڈھونگی لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حقیقی لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کی چھان بین کرے جو عوام کو گمراہ کررے ہیں۔