گزشتہ دنوں وفاقی وزیر کا ایک چونکا دینے والا بیان سامنے آیا ۔وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ ملک میں نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی اور 28 ہزار تو اس سال تک صرف میری وزرات میں ہوں گی۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے نجی نیوز کے دو بڑے معروف پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ ہفتے دس دن میں پاکستان کے اندر نوکریوں کی بارش ہونے والی ہے۔ ان کے اس بیان کو سوشل میڈیا صارفین نے آڑے ہاتھوں لیا تھا اور اپوزیشن کی جانب سے بھی کافی تنقید کی گئی تھی لیکن اب بھی وفاقی وزیر فیصل واوڈا اپنے بیان پر قائم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی اور بے حد نوکریاں ہوں گی، 28 ہزار تو اس سال تک صرف ان کی وزرات میں ہوں گی اور 10 دنوں سے 5 ہفتوں میں سب سامنے آجائے گا اور پھر لوگ کہیں گے کہ فیصل واوڈا ٹھیک کہہ رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ان کی نہ زبان پھسلی تھی نہ انھوں نے کچھ بڑھا چڑھا کر کہا، گیس آرہی ہے، گاڑیوں اور مشروبات کے پلانٹ لگ رہے ہیں، ایئر لائنز آرہی ہیں جس کے بعد نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی۔فیصل واوڈا کے بیان پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں ، ان کے بارے میں عوام بخوبی جانتے ہیں ۔اس لئے بلاوجہ تنقید اور قبل ازوقت اعتراض نہ کرنے کی راہ اختیار کررہا ہوں۔
عوام کی طرح راقم بھی منتظررہاکہ وزیر اعظم نے بہت بڑی خوشخبری کی امید دلائی تھی ۔ پہلے میں غلط فہمی کا شکار ہوگیا ۔ لیکن پھر فوراََ تصدیق ہوئی کہ دراصل خوشخبری سے مُراد کراچی کے ساحل سمندر سے متوقع نکلنے ولا دنیا کا سب سے بڑا گیس دخائر ملنے والا ہے۔اب اس بات کا علم نہیں کہ فیصل واوڈانے عمران خان کو یہ خوشخبری سنائی یا وزیر اعظم قوم کو سرپرائز میں دینا چاہتے تھے ْ۔ یہ بھی قبل ازوقت خبر ہے لیکن دل وجان سے دعا کرتا ہوں کہ کوئی کرامات ہوجائے اور مٹی سونا بن جائے۔آمین ۔مجھے وزیر اعظم کے کسی بھی انتخابی وعدے کو زیر بحث نہیں لانا ۔ کیونکہ اُن کا مانگا گیا وقت گزر چکا ہے ۔ اب ہمیں اس بار ے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ بیشتر احباب کا کہنا مان لیا تھا کہ حکومت کو مزید وقت دینا چاہیے۔ کئی عشروں کی خرابیاں چند مہینوں میں ختم نہیں ہوسکتی ۔ میں سر تسلیم خم کرلیا ۔ لیکن اُس وقت سر پکڑ لیا جب وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ اب تک اربوں ڈالر جو عربوں سے لئے تھے جو دراصل سود کی ادائیگی کے لئے تھے۔ یعنی امور مملکت ، ترقیاتی کاموں اور دفاع کی مد میں کارآمد نہیں ہوئئے۔ اس موقع پر مجھے بھارتی فلم ‘ مدر انڈیا ‘ یاد آگئی۔ ”پارو ”ساری زندگی ‘ سکھیالالہ جی ‘ کا سود نہ اتار سکی۔، شوہر بھی گیا ، اولاد بھی ہاتھ سے گئی، کھیت کھیلان سب کچھ تباہ ہوگیا اور جو کچھ بچا وہ صرف” لالاجی” کا قرضہ وسود تھا۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے مذاکراتی دور واشنگٹن میں ہوچکے ہیں ۔ اب کیا معاہدہ طے پایا ، حکومت نے کیا کرنا ہے ۔ بس سب قیاس آرائیاں ہیں۔ ابھی سینہ کوبی کرہی رہے تھے کہ قوم کو نکتہ کیمیا دیا گیا کہ دو روٹی کے بجائے ایک روٹی کھائیں ، جلد ہی اچھا وقت اآجائے گا تو اڑھائی روٹی کھالینا ۔ دل کی بات کہوں ، چاہے کسی کو اچھی لگے یا بُری لگی ۔ تحریک انصاف کو عوام کو ماموں بنانے کے فن میں کمال کی مہارت ہے۔ ملک میں ہو کیا رہا ہے اس کا کسی کو بھی علم نہیں ۔ عرب ممالک نے جو دینا تھا وہ تو دے دیا ۔ اب انہیں جو لینا ے،کب لیں گے اُس سے ہم بے خبر ہیں اس لئے کسی قسم کی قیاس آرائی نہیں کررہا ۔ لیکن وزیر خارجہ نے خطرناک ” خدشے ” کا اظہار کیا ہے کہ 16تا 20اپریل بھارت ،پاکستان کے خلاف کوئی بہیمانہ کاروائی کرسکتا ہے۔ عوام پریشان ہوگئی کہ نوکریوں کی برسات کے لئے سی وی تیار کریں یا بندوقیں صاف کرنا شروع کردیں ۔ شاہ محمود قریشی نے یقینی طور پر کسی اہم انٹیلی جنس رپورٹ پر ہی دنیا کے سامنے بیان دیا ہوگا ۔ اہم مقصد اور اسٹریجی کی بنا پر وزیر خارجہ کے بیان کو غیر سنجیدہ بھی نہیں لے سکتے ۔ کیونکہ اس وقت تک پاکستانی عوا م نریندر مودی جیسے ہندو انتہا پسند و شدت پسند وزیراعظم سے جان چھڑنے کے لئے دعا گو تھی کہ کم ازکم پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو جس جنگی جنون میں مودی سرکار لے گئے ہیں ، اگر بھارت میں دوبارہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کے براہ راست اثرات پاکستان اور مقبوضہ کشمیر پر براہ راست پڑیں گے ۔ کیونکہ مودی اپنی کارکردگی پر نہیں بلکہ پاکستان مخالف ووٹ کی بنیاد پر انتخابات لڑ رہے ہیں ۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان کے مودی کے حق میں بیان دینے پر پاکستان سے زیادہ بھارت کی عوام حیران ہوگئی کہ کیا وزیر اعظم عمران خان سنجیدہ ہیں یا پھر کوئی پولیٹیکل سرجیکل اسٹرئک کی ہے ۔ تاہم عمرا ن خان کے اس بیان کا بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کو بھرپور فائدہ پہنچا ہے اور مودی سرکاری کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ ”مودی و نیازی کا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے اور پاکستان اور مودی کے درمیان اتحاد ہوچکا ہے”۔
مجھے عمران خان کی بیان کی بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیا وہ مودی کو کامیاب کرانا چاہتے ہیں یا پھر بھارت کی پاکستان دشمنی کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو دے کر مودی کے لئے مشکلات پیداکرکے دراصل کوئی جادو ٹونہ ہے۔ اب اس بیان کی منطق پر بحث کرنا بھی فضول ہے کیونکہ 8مہینے میں ثابت ہوچکا ہے کہ وزیر اعظم بولتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اس لئے قیاس آرائیاں کرنا وقت کو ضائع کرنا ہی برابر ہیں۔ ایک اور اہم معاملہ بھی نزاع کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ باجوڑ جلسے میں وزیر اعظم نے افغانستان کو’ عبوری حکومت ‘ ی جو تجویز دی وہ پاکستان کے انوکھے عبوری نظام کے تجربے کی بنیاد پر دی تھی ، لیکن اُسے کابل حکومت نے اُ س تجویز کو اپنے منفی پرپیگنڈے کے لئے استعمال کیا اور اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان نے دوحہ مذاکراتی عمل کے اہم دور میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ کابل حکومت کی جانب سے مقررہ امن جرگہ کے ساتھ افغان طالبان کی ملاقات کو جتنا بھی غیر رسمی کہا جائے ۔ لیکن کابل حکومت بالاآخر اپنی ٹیم کو مذاکرتی عمل کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ پاکستان نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان سہولت کاری کا جو ہما اپنے سر پر باندھا تھا ۔ اب اس کے مضمرات سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب پاکستان کو غیر موثر بنانے کا سلسلہ کا آغاز ہوگیا ہے۔ امریکا نے اپنے بیان میں واضح کردیا ہے کہ افغان طالبان کو سفری اجازت دی جاچکی تھی ۔ لیکن پاکستانی وزیر اعظم نے قصداََ ملاقات نہیں کی او ر اپنے ایک بیان میں اعتراف بھی کیا ۔ اس عمل کو امارات اسلامیہ نے اچھے معنوں میں نہیں لیا ہے اور پاکستا ن کے ساتھ کشیدگی میں متواتر عدم اعتماد کی فضا قائم ہو رہی ہے۔
میںتو برسات کی طرح نوکریوں برسنے کی خوش فہمی میں رہنا چاہتا تھا لیکن پے در پے کئی معاملات قلم کی زد میں آتے چلے گئے جس کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی اب تک تو صرف معاشی پالیسیاں مملکت کے لئے سوہان روح بنی ہوئی تھی لیکن اب غیر مبہم خارجہ پالیسی نے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ۔ اسلامی صدارتی نظام لانے کی قیاس آرائیاں شکوک و یقین میں اضافہ کررہے ہیں۔وزیر اعظم کا رویہ اور کابینہ کی جارحانہ پالیسیاں ملکی سلامتی کے لئے خدا نخواستہ خطرہ بن سکتی ہیں۔ عمران خان اننگ ڈکلیئر نہ کریں لیکن فالو آن سے بچنے کے لئے کوشش کریں۔