عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس گلدستے میں ہر پھول کی خوشبو تازگی اور خوبصورتی نرالی ہے اِس گلدستے میں ایک پھول ایسا ہے جس کی معطر خوشبو سے کائنات کا کونہ کونہ مہک رہا ہے۔یہ وہ آفتاب ہے کہ جس کی روشنی سے کرہ ارض اور کائنات کے عمیق ترین اور بعید ترین گوشے روشن چمک رہے ہیں اِس آفتاب کی روشنی کے سامنے ہزاروں سورج اور ان کی روشنی بھی ماند پڑ جاتی ہے ازل سے ابد تک ہر روز عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آتی رہیں گی جن سے اہل ایمان کے ایمان تازہ اور زندہ ہوتے رہیں گے۔ہر دور میں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار اِسی طرح کرتے رہے گے۔لیکن ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا ہے کہ قیامت تک عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلِ ایمان اس کے مقام و مرتبہ پر رشک کرتے رہیں گے جو مقام اِ س عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علاوہ آج تک اور قیامت تک کسی اور کو نہیں مل پائے گا بلاشبہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قافلے کے یہ سردار ہیں۔
اور روزِ محشر تک کوئی بھی آپ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔معراج کی شب جب سرور دو عالم ۖ فخرِ موجودات فلک افلاک پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کسی کی جسمانی روح کا قابل ربانی فیض و برکات کی چادر اوڑھے ایک شاندار تخت مرصع و نورانی پر بڑے اطمینان و فراغت کے ساتھ بے نیازی کے انداز سے پاں پھیلائے ہوئے آرام فرما رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے تو جبرائیل نے عرض کیا یہ مجال اور جرات شیخ اویس قرنی کے قالب نے کی ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں دم مارا ہے اور درد و فراق میں قدم اٹھا یا ہے اور ابھی ایک لحظہ دم کے لیے آرام کر رہا ہے۔معراج کی شب ہی حضرت اویس کے خراٹوں کی آواز سن کر فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کس کی آواز ہے تو غیب سے جواب ملا کہ یہ اویس قرنی کی آواز ہے اور میں نے چند فرشتوں کو اِس آواز پر متعین کر دیا ہے کیونکہ یہ آواز مجھ کو بہت پسند ہے۔ روزِ محشر ربِ ذولجلال حضرت اویس قرنی کو بہت بڑی شان سے جنت میں داخل فرما یں گے۔
ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اویس احسان و مروت کے اعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہیں اور روزِ محشر ستر ہزار ملائکہ کے جلوے میں اویس قرنی جنت میں داخل ہوں گے اور وہ ستر ہزار فرشتے ان کے ہم شکل ہونگے تاکہ مخلوق ان کی شناخت نہ کر سکے سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالی ان کے دیدا ر سے مشرف کرنا چاہے ۔یہ اس لیے ہو گا کہ حضرت اویس قرنی نے خلوت نشین ہو کر مخلوق سے رو پوشی کر کے محض اللہ تعالی کی عبادت و ریاضت کی اور دنیا والے آپ کو برگزیدہ تصور نہ کرے اور اِسی مصلحت کے پیشِ نظر روزِ محشر آپ کی پردہ پوشی قائم رکھی جائے گی۔تذکر الاولیا میں شیخ فرید الدین عطار نے حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ایمان افروز روایت بیان کی ہے کہ ۔ میری امت میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیع اور مغر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر گناہ گاروں کو بخش دیا جائے گا اور جب صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ وہ کون ساشخص ہے اور کہاں مقیم ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالی کا ایک بندہ ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب بھی اللہ تعالی کے بندے ہیں اِس کا اصل نام کیا تو آپ ۖ نے فرمایا کہ وہ اویس قرنی ہے۔
صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا کبھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضر ہوا ہے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کبھی نہیں لیکن ظاہری طور کی بجائے باطنی طورپر اس کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور مجھ تک اس کے نہ پہنچنے کی دو وجو ہات ہیں اول غلبہ حال دوم تعظیم شریعت کیونکہ اس کی والدہ محترمہ ضعیف اور نابینا ہیں۔حضرت اویس قرنی شتر بانی کے ذریعہ اپنے لیے معاش حاصل کرتا ہے اور پھر آپ ۖ نے حضرت ابو بکر صدیق کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اس سے نہ مل سکو گے لیکن حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضی اس سے ملاقات کریں گے اور اس کی شناخت اور تعارف یہ ہے کہ اس کے پورے جسم پر بال ہیں ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں لہذا جب بھی ان سے ملاقات کرو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا پیغام بھی ضرور دینا ۔اِس کے بعد صحابہ کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خرقہ کا حق دار کون ہے تو سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اویس قرنی ۔سبحان اللہ کیا شان اور مقام ہے حضرت اویس قرنی کا ۔ حضرت اویس قرنی ، حضرت اویس قرنی کو سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مرتبہ محبوبیت بھی حاصل تھا روایت میں آتاہے کہ فخر ِ کائنات کبھی کبھی وفورِ شوق میں اپنے پیراہن کے بند کھول کر سینہ مبارک بطرف یمن کرکے فرمایا کرتے یعنی میں نسیم رحمت یمن کی طرف پاتا ہوں ۔عدن سے محبوب کی خوشبو آتی ہے یعنی اویس قرنی جان پرور ہے ۔کتاب قصص الاولیا میں بیان ہے۔
خواجہ اویس قرنی طلوع اسلام سے پہلے اِس دنیا میں تشریف لا چکے تھے خواجہ صاحب عہد طفولیت میں والد کی شفقت سے محروم ہو گئے اِس لیے ان کو بچپن ہی میں محنت مزدوری کرنا پڑی آپ لوگوں کے اونٹ اجرت پر چرایا کرتے تھے اور اِس اجرت سے اپنا اور اپنی ضعیف اور نابیانا ماں کا پیٹ پالا کرتے تھے اِس کے علاوہ جو تھوڑی سی رقم بچ رہتی اس کو لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے آپ زندگی کے شب و روز اسی طرح گزار رہے تھے کہ یمن تک اسلام کے جان لیوا پیدا ہو گئے جب آپ کو اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خبر ملی تو آپ فورااسلام لے آئے آپ کے اندر نورِ ہدایت کی شمع ہدایت کو جلا بخشی اور آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساقی کوثر فخرِ دو عالم کے دیوانے اور شیدائی بن گئے آپ کو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس قدر عشق تھا کہ ہمہ وقت اِسی عشق میں مستغرق رہتے تھے جنگ ِ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر ملی تو اپنا ایک دانت توڑ ڈالا پھر دل میں خیال آیا کہ شاید آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو گا۔تو دوسرا دانت بھی توڑ دیا اِس طرح ایک ایک کر کے سارے دانت مبارک توڑ ڈالے تو عاشق کو سکون حاصل ہوا اللہ تعالی کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ کیلے کا درخت پیدا کیا تاکہ آپ کو نرم غذا مل سکے اِس سے پہلے زمین پر کیلے کا درخت نہ تھا۔