تاریخ کے طالب علم کے طورپر یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ ماضی کے احوال و وقائع سے درس عبر اور پندو نصیحت حاصل کرنا ہی مطالعہ تاریخ کا مقصد و ہدف ہے بجز اس کے کوئی بھی معاشرہ و قوم اپنے عہد اقتدار کو قائم و دائم نہیں رکھ سکتی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک و ملت کی قیادت کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اور غیر اقوام کی تاریخ کا باریک بینی اور وسعت کے ساتھ مطالعہ کریں کہ رومی و فارسی، ہندی و مصری اور یونانی اور خلافت اسلامی ، سویت یونین اوربرطانیہ و فرانس اور اٹلی کے حصے کی وجوہات و اسباب کی بنیاد پر بخرے ہوئے اور کونسے ایسے رہنما اصول ہیںجن کو اختیار کرکے اقتدار کے سورج کو تادیر کیلئے اپنے حق میں کیا جاسکتا ہے۔پاکستان برصغیر کے مسلم اکثریتی حصے پر قائم کیا گیا۔ بنیاد کلمہ اسلام بنی اور مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی ملی و قومی اور مذہبی کے امور سرانجام دے سکیں۔مسلمانوں کی تحریک آزادی کو توڑنے اور ناکام بنانے کیلئے برطانوی سامراج نے نام نہاد مسلمانوں جو درحقیقت دشمن اسلام ہیں اور حضور سرورکونین ،فخر موجودات پیغمبر،خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیۖ کی ختم نبوت پر حملہ آور تھے مراد مرزا غلام قادیانی کو مسلمانوں کو منتشر و متفرق کرنے کیلئے بطور آلہ کار کے استعمال کیا اور اس کے مخرفات پر مبنی کتب کی اشاعت مختلف زبانوں میں کرانے کے ساتھ مرزا کو اسلام اور پیغبر اسلام کی دشمنی کا معاوضہ بھی دیا جاتا رہا۔
اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ ارضی عنایت کیا اور مرزا اور اس کی ذریت ناکام و نامراد ہوئی مگر آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈ کلف ایوارڈ میں پنجاب کی تقسیم کے مسئلہ پر سر ظفر اللہ خان جو کہ قادیانی مذہب کا پیروکار اور وفادار تھا نے مسلم لیگ کے مئوقف کے برعکس ضلع گورداسپور ہندوستانیوں کے سپرد کروایا جس کا بدیہی نتیجہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقہ کشمیر جنت نظیر سے پاکستان اور مسلمانوں کو محروم کردیا۔کیونکہ مرزا بشیر الدین خود کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کرنے کی بجائے جداگانہ حیثیت کا طالب تھا۔ یہی ہی نہیں سر ظفر اللہ خان ملک پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنا اور اس نے بحیثیت وزیر خارجہ ملک پاکستان کی سالمیت وبقاکی بجائے قادیانیت کی تبلیغ و نشرو اشاعت کیلئے وزارت کو استعمال کیا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش و فرمائش پر پاکستان کے سیاسی و اقتصادی اور قانونی امور کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کا فریضہ نومسلم عالم و مفکر علامہ اسد کی ذمہ داری و ڈیوٹی لگائی گئی تو سر ظفر اللہ خان کی کوششوں سے نا صرف علامہ اسد کو اسلامائزیشن کے پروجیکٹ سے الگ کروایا گیا بلکہ ان کی جانب سے جاری پروجیکٹ کے مرکزی آفس میں خودساختہ آگ لگواکر تمام ریکارڈ خاکستر کروادیا گیا۔اسی طرح سر ظفر اللہ خان کو کراچی کی قادیانی کمیونٹی نے اپنے اجلاس عام میں خطاب کیلئے دعوت دی تو انہوں نے اسلامی پاکستان کے اہم ترین منصب پر براجمان ہوتے ہوئے قادیانیت کی تبلیغ سے پہلوتہی نہ کی تووزیر اعظم نے استعفیٰ طلب کرلیا۔یہی نہیں قادیانیت کے ایک اور پیروکار کی ملک دشمنی بھی ملاحظہ کرلیں کہ جنرل یحیٰ خان نے ایم ایم احمد جو کہ مرزا غلام قادیانی کا پوتا تھا کو اپنے ماتحت ڈپٹی چیئرمین اقتصادی کمیشن اور پھر اپنا مشیر برائے اقتصادی امور تعینات کیا جس نے مشرقی و مغربی پاکستان میں خلیج ڈالنے کی طرح ڈالی ۔اور ملک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ایسے ناپاک و مذموم منصوبوں پر کام کیا کہ جس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن کے مئوقف کو شہرت ملنے لگی اور بلآخر ملک دو لخت ہو ااور اس سلسلہ میں ائر فورس کے جنرل نور خان نے ایم ایم احمد کے مذموم مقاصد و سرگرمیوں کا پردہ پریس کانفرنس میں چاک کیا تھا۔
پاکستان جو کلمہ اسلام کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آیا اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی آخر الزمانۖ کی خاتم المرسلین کا اقرار قلب و جان اور زبان سے کرنا لازم ٹھہرنے کی وجہ سے اول 1973ء اور پھر 1974ء میں قادیانیوں کی تمام شکلوں اور گروہوں کو خارج از اسلام قرار دیا گیا اور ان کے اذان دینے، خود کو مسلمان کہنے ،مذہب کے پروچار کرنے سمیت متعدد پابندیاں عائد کی گئی۔ جس کے بعد قادیانیت کے سربراہ ملک چھوڑ کر مغربی ممالک میں فرار ہوگئے اور جنیواانسانی حقوق کمیشن میں پاکستانی سفارت کارمسٹر منصور احمد بغیر اعلیٰ حکام مملکت کی اجازت کے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر قادیانیوں کے مئوقف کی تائید کرآیا چونکہ وہ خود قادیانی کا پیروکار تھا۔ جس کی وجہ سے آج تک وطن عزیز مغربی ممالک کے زیر عتاب ہے۔
پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی نے ہی ایٹمی راز افشاں کیے جس کی وجہ سے اس کو نوبل پرائز بھی دیا گیا ۔ان تمام سرکشیوں اور عداوت اور طغیانیوں کو مدنظر رکھنے کے باوجود بھی اگر موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف اور اس کے وزیر اعظم عمران خان یہ توقع رکھیں کہ قادیانی ہونا کوئی مسئلہ نہیں وہ پاکستانی شہری ہیں اور ان کو یہاں برابر کے حقوق حاصل ہونے کی وجہ سے ان کو وزیر اعظم کی اقتصادی کونسل کا ممبر عالمی مبلغ و انچارج مالیاتی امور قادیانی سنٹر لندن عاطف میاں کو نامزد کرنا کوئی جرم نہیں تو بات بڑی واضح ہے کہ ہمیں ملک پاکستان میں ایسی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم ایمان و ایقان بیچتے پھریں کہ اس کے بدلہ میں ہماری معیشت بہتر ہوجائے گی یا ملک ترقی کرے گا۔
جو لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت و توقیر پر حملہ آور ہیں اور خود پاکستانی آئین کے خلاف جنیواکمیشن میں کیس دائر کرتے ہیں اور اپنے اجتماعات میں ببانگ دہل موجودہ حکمران جماعت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو اسلام سے خارج کرنے والے آئین و قانون کو تبدیل کیا جائے تو انصاف کے ساتھ بتلائیے کہ کیا گارنٹی ہے کہ عاطف میاں اپنے اخلاف و اسلاف کی طرح قادیانیت سے غدداری کرکے وطن سے محبت و وفاداری کرے گا اور ملک پاکستان جو موجودہ حالات میں ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے کے اہم ترین اور حساس ترین منصوبوں سی پیک وغیرہ کے راز اپنے قائد مرزا غلام قادیانی کے نقش قد م پر چلتے ہوئے مغرب کو نہیں فراہم کرے گا۔وزیر اعظم عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت بہت سخت ہے اور اللہ جل شانہ اپنی ربوبیت کے منکروں کیخلاف کھلے الفاظ میں وعد و وعید نہیں کرتا مگر دفاع پیغمبر اسلام میں اللہ جل شانہ نے کسی مصلحت سے کام لینے کی بجائے شدید الفاظ میںں مذمت کی ہے اور اللہ اور رسول کے ساتھ اعلان جنگ کرنے والوں یا پھر دشمنان خداو رسول کی دوستی اختیار کرنے والوں کی دنیااور آخرت میں ناکامی و نامرادی مقدر ہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا ہے