تحریر : کامران غنی صبا محبت رسولۖ عین ایمان ہے۔ قرآن کریم کی بے شمار آیات اور متعدد احادیث مبارکہ سے اطاعت و محبت رسولۖ کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوتی ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ائے نبیۖ،کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں ، اورتمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ گھر جو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ اور اس کے رسولۖ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ،اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ 24)نیز فرمایا: جس نے رسولۖ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اورجو منھ موڑ گیا ، تو بہرحال ہم نے تمھیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔(النسآء 80)اسی طرح متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیاہے۔بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے:
تم میں سے کوئی ایمان میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اس کے دل میں اس کے باپ،بیٹے اورتمام انسانوں سے بڑھ کر راسخ نہ ہو جائے۔
قرآن کریم کی ان ہی آیات اور سیرت پاکۖ کے غائر مطالعہ نے علامہ اقبال کو ایک سچا عاشق رسول بنا دیا۔ایک ایسا عاشق رسول کہ اسم ‘محمدۖ’ سنتے ہی جس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے اور دل بے تاب و بے قرار ہو جاتا۔فقیر سید وحید الدین ”روزگار فقیر” میں لکھتے ہیں:-
”ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسولۖ نے گداز کر رکھا تھا۔زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی اور وہ کئی منٹ تک مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔”
(روزگار فقیر جلد اول ص:94-95،مطبوعہ سپننگ ملز کراچی 1964) علامہ اقبال کا یہی حب رسولۖ ہمیں ان کی اردو واور فارسی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔اپنی شاعری کو فیضان رسولۖ قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں تب و تاب دل از سوز غم تست نوائے من ز تاثیر دم تست (میرے دل میں جو گرمی اور بے تابی ہے آپ کے سوز غم کی بدولت ہے۔میرے نالے آپ ہی کی توجہ کا فیضان ہے۔) دوسری جگہ فرماتے ہیں مرا ایں سوز از فیض دم تست بتاکم موج مئے از زم زم تست خجل ملک جم از درویشی من کہ دل در سینہ من محرم تست
(مجھے جو سوز عطا ہوا ہے وہ آپ ہی کا فیضان ہے۔میرے انگوروں کی بیل میں جو شراب ابل رہی ہے وہ آپ ہی کے زمزم سے نکلی ہے۔میری درویشی سے مملکت کسری و جمشید بھی شرماتی ہے کیوں کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ آپ ہی کے اسرار کا محرم ہے۔)
علامہ اقبال کی نظروں میں عشق ہی حاصل دنیا و دین ہے اور اس کا سرچشمہ وہ ذات اقدس ہے جس کے طفیل سارے عالم کی تخلیق ہوئی اور جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔اقبال کے ان اشعار کو پڑھیے اور محسوس کیجیے کہ شاعر نے جب یہ اشعار کہیں ہوں گے تو اُس کے دل کی کیا کیفیت ہوگی
جہاں از عشق و عشق از سینۂ تست سروش از مئے دیرینۂ تست جز ایں چیزے نمی دانم ز جبریل کہ او یک جوہر از آئینۂ تست
(دنیا عشق کی دولت سے قائم ہے اور عشق کی دولت آپۖ کی سینہ مبارک سے حاصل ہوتی ہے۔اس عشق میں سرور اس شراب کہن سے پیدا ہوتاہے جو آپۖ نے کشید فرمائی اور پلائی۔مجھے جبرئیل کی باببت بھی صرف اتنا معلوم ہے کہ جبرئیل بھی آئینہ ء رسالتۖ کے ایک جوہر کا نام ہے۔)
علامہ اقبال کا حب رسولۖ اس کمال پر پہنچا ہوا ہے کہ بسا اوقات فرط جذبات سے مغلوب ہو کر وہ اپنی اور مسلمانان عالم کی بے بسی و بکسی کی فریاد براہ راست رحمت للعالمین کے حضور کرنے لگتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے روبرو تشریف فرما ہیں اور آپ ان سے دستگیری اور فریاد رسی کی التجاء کر رہے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں
تو ائے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان زناری
کرم ائے شہہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے جنھیںدماغ قلندری
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
دگرگوں کرد لادینی جہاں را ز آثار بند گفتند جاں را ازاں فقرے کہ با صدیق داری پشورے آور ایں آسودہ جاں را
(ساری دنیا کو لادینی نے دگرگوں کر دیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ دنیا والے روح کو بھی جسم کے آثار میں شمار کرنے لگے ہیں۔جو فقر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو بخشا تھا اس سے ہماری بے حس روحوں میں سوز وحرکت پیدا فرما دیجیے۔)
فقیرم از تو خواہم ہر چہ خواہم دل کوہ خراش از برگ کاہم مرا درس حکیماں درد سر داد کہ من پروردئہ فیض نگاہم
(میں فقیر ہوں اور جو کچھ طلب کرتا ہوں آپ ہی سے طلب کرتا ہوں۔میں گھاس کا ایک تنکا ہوں ،اس کی ایک پتی سے پہاڑ جیسا سنگین اور مستحکم دل تراش دیجیے۔دانشمندوں اور فلسفیوں کی کتاب نے مجھے درد سر اور پریشاں خیالی کے سوا کچھ نہ دیا اس لیے کہ میں آپ کی نگاہوں سے فیض یافتہ ہوں۔)
دعویٔ عشق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اتباع و اطاعت محبوب نہ ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین آپۖ کے ہر فعل و عمل پر نظر رکھتے اور دل و جان سے ان کی تقلید کرتے۔حضرت عبد اللہ ابن عمر جب حج کو جاتے تو بلا کسی ظاہری سبب کے جا بجا رکتے یا اٹھتے ،بیٹھتے جاتے۔کسی نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے حضورۖ کو سفر حج میں جس جگہ جس حالت اور جس انداز میں دیکھا ، میں چاہتا ہوں کہ ان طریقوں پر جوں کا توں عمل کروں۔اسی طرح عبد اللہ ابن مسعود ایک مرتبہ جمعہ کے لیے مسجد میں آئے تو حضورۖاس وقت خطبہ دے رہے تھے۔یکایک ان کے کان میں حضورۖ کی آواز آئی کہ ” بیٹھ جائو” حضرت عبد اللہ ابن مسعود اس وقت دروازے پر تھے سنتے ہی وہیں بیٹھ گئے۔حضورۖ نے جب آپ کو بیٹھے دیکھا تو فرمایا ‘ ائے ابن مسعود آگے آ جا۔’
علامہ اقبال نے سیرت رسولۖ و صحابہ کا بغائر مطالعہ کیا تھا ۔وہ جانتے تھے کہ بغیر اطاعت رسول کے قربت رسول بلکہ قربت خدا بھی ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں
در اطاعت کوش ائے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار ناکس از فرماں پذیری کس شود آتش ار باشد ز طغیاں خس شود
(ائے غافل اطاعت میں سرگرم رہ۔اسی جبر ہی سے تو اختیار کا رتبہ حاصل ہوتاہے۔اتباع اور فرماں برداری سے نااہل بھی اہل بن جاتے ہیں۔آگ بھی ہو تو اس کے شعلے بجھ جاتے ہیں۔)
علامہ اقبال نے سنت رسولۖ کی پیروی کو اپنا شیوئہ حیات بنا لیا تھا۔محمد حسنین سید نے مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے اپنی کتاب ‘جوہر اقبال’ میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا ہے۔جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔لکھتے ہیں:-
”پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔رات کو جس وقت اقبال نے اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاکۖکی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں ، اس نے بوریے پر سو کر زندگی گذار دی تھی۔یہ خیال آنا تھا کہ آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی۔اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا۔اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے،اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر پنا بستر کھلوایا ، اور ایک چارپائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔اور جب تک وہاں مقیم رہے ، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔”
الغرض علامہ اقبال کی زندگی اور ان کی شاعری محبت رسول کے جذبے سے مملو ہے۔ذات محمدیۖ تک رسائی کو ہی وہ سراپا دین قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ سب کچھ ان کی نظروں میں بو لہبی اور بے دینی ہے بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است